اس کے ہوتے بزم میں فانوس میں آتی ہے شمع
یعنی اس آتش کے پرکالے سے شرماتی ہے شمع
ہر زماں جاتی ہے گھٹتی سامنے تیرے کھڑی
جوش غم سے آپ ہی اپنے تئیں کھاتی ہے شمع
بیٹھے اس مہ کے کسو کو دیکھتا ہے کب کوئی
رنگ رو کو بزم میں ہر چند جھمکاتی ہے شمع
باد سے جنبش میں کچھ رہتی نہیں ہے متصل
اس بھبھوکے سے جو گھٹتی ہے سو جھنجھلاتی ہے شمع
چھوڑتی ہے لطف کیا افسردگی خاطر کی میر
آگے اس کے چہرئہ روشن کے بجھ جاتی ہے شمع
میر تقی میر