رقص
آئینہ سے فرش پر
ٹوٹے بدن کا عکس،
آدھے چاند کی صورت لرزتا ہے
ہوا کے وائلن کی نرم موسیقی
خنک تاریکیوں میں
چاہنے والوں کی سرگوشی کی صورت بہہ رہی ہے
اور ہجومِ ناشناساں سے پرے
نسبتاً کم بولتی تنہائی میں
اجنبی ساتھی نے ، میرے دل کی ویرانی کا ماتھا چُوم کر
مجھ کو یوں تھاما ہُوا ہے
جیسے میرے سارے دُکھ اب اُس کے شانوں کے لیے ہیں !
دونوں آنکھیں بند کر کے
میں نے بھی اِن بازوؤں پر تھک کے سریوں رکھ دیا ہے
جیسے غربت میں اچانک چھاؤں پاکر راہ گم گشتہ مسافر پیڑ سے سر ٹیک دے!
خواب صورت روشنی
اور ساز کی دلدار لے
اُس کی سانسوں سے گُزر کر
میرے خوں کی گردشوں میں سبز تارے بو رہی ہے
رات کی آنکھوں کے ڈورے بھی گُلابی ہو رہے ہیں
اُس کے سینے سے لگی
میں کنول کے پھُول کی وارفتگی سے
سر خوشی کی جھیل پر آہستہ آہستہ قدم یوں رکھ رہی ہوں
جیسے میرے پاؤں کچّی نیندوں میں ہوں اور ذرا بھاری قدم رکھے تو پانی ٹوٹ جائے گا
شکستہ روح پر سے غم کے سارے پیرہن
ایک ایک کر کے اُترتے جا رہے ہیں
لمحہ لمحہ
میں زمیں سے دُور ہوتی جا رہی ہوں
اب ہَوا میں پاؤں ہیں
اب بادلوں پر
اب ستاروں کے قریب
اب ستاروں سے بھی اُوپر،…..
اور اُوپر…..اور اُوپر…..اور۔۔۔۔۔۔
پروین شاکر