رفتار میں یہ شوخی رحم اے جواں زمیں پر
لاتا ہے تازہ آفت تو ہر زماں زمیں پر
آنکھیں لگی رہیں گی برسوں وہیں سبھوں کی
ہو گا قدم کا تیرے جس جا نشاں زمیں پر
میں مشت خاک یارب بارگران غم تھا
کیا کہیے آ پڑا ہے اک آسماں زمیں پر
آنکھیں ہی بچھ رہی ہیں لوگوں کی تیری رہ میں
ٹک دیکھ کر قدم رکھ اے کام جاں زمیں پر
خاک سیہ سے یکساں ہر ایک ہے کہے تو
مارا اٹھا فلک نے سارا جہاں زمیں پر
چشمے کہیں ہیں جوشاں جوئیں کہیں ہیں جاری
جوں ابر ہم نہ روئے اس بن کہاں زمیں پر
آتا نہ تھا فرو سرجن کا کل آسماں سے
ہیں ٹھوکروں میں ان کے آج استخواں زمیں پر
جو کوئی یاں سے گذرا کیا آپ سے نہ گذرا
پانی رہا کب اتنا ہوکر رواں زمیں پر
پھر بھی اٹھالی سر پر تم نے زمیں سب آکر
کیا کیا ہوا تھا تم سے کچھ آگے یاں زمیں پر
کچھ بھی مناسبت ہے یاں عجز واں تکبر
وے آسمان پر ہیں میں ناتواں زمیں پر
پست و بلند یاں کا ہے اور ہی طرف سے
اپنی نظر نہیں ہے کچھ آسماں زمیں پر
قصر جناں تو ہم نے دیکھا نہیں جو کہیے
شاید نہ ہووے دل سا کوئی مکاں زمیں پر
یاں خاک سے انھوں کی لوگوں نے گھر بنائے
آثار ہیں جنھوں کے اب تک عیاں زمیں پر
کیا سر جھکا رہے ہو میر اس غزل کو سن کر
بارے نظر کرو ٹک اے مہرباں زمیں پر
میر تقی میر