مصیبتوں کا پلٹ کے آنا یہ آیا ہم پہ عذاب کیسا
ہےموت کا ایک دن معین توچہروں پہ اضطراب کیسا
جوعُمرساری ہےتیرکردی خُداکوپانے میں ہم نےاب تک
خُدا ملا ہے غریب کے گھر تو مولوی کاسراب کیسا
غریب کےپیٹ میں نوالہ نہ تن پہ کپڑا نہ پا میں جوتا
یہ خالی پیٹوں گناہ کیسےیہ مفلسی کاحساب کیسا
غریب فاقوں سےمررہےہیں خطاب ہر روزسن رہےہیں
بتادےمجھ کوتوشیخِ مسجدکہ فاقہ کش کوخطاب کیسا
جومیں نےمانگادوگھونٹ پانی دِکھا دیامجھ کوابرِباراں
جو سر پہ آکےپلٹ گیا پھر وہ کیسا بادل سحاب کیسا
ڈاکٹرمحمدالیاس عاجز