- Advertisement -

قصہ گو

آشفتہ چنگیزی کی ایک اردو نظم

قصہ گو

وہی قصہ گو

جو اک روز قصہ سناتے سناتے

کسی پیاس کو یاد کرتا ہوا،

اٹھ گیا تھا

پھر اک روز لوگوں سے یہ بھی سنا تھا

کہ وہ،

پیاس ہی پیاس کی رٹ لگاتا ہوا

اک کنویں میں گرا تھا

ادھر کچھ دنوں سے

یہ افواہ گردش میں ہے

کہ وہ قصہ گو

جسے بھی دکھائی دیا ہے

وہ بس

پیاس ہی پیاس کی رٹ لگاتا ہوا

کنویں کی طرف جا رہا ہے

آشفتہ چنگیزی

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
آشفتہ چنگیزی کی ایک اردو نظم