عجیب منطق سے دل ہمارے بھرے ہوئے ہیں
قریب آ کر اچانک اس سے پرے ہوئے ہیں
وصال کو ہجر کہتے کہتے گزر رہی ہے
کسی کی قربت سے اس قدر ہم ڈرے ہوئے ہیں
ہم اپنی اپنی سزا جزا کو پہنچ چکے ہیں
تمہارے سکے، ہمارے کھوٹے کھرے ہوئے ہیں
یہ برگدوں کی کہانیاں ٹھیک ہیں مگر ہم
گھروں میں بیٹھے بٹھائے پورے ہرے ہوئے ہیں
میں ہنستے ہنستے بتا رہا تھا خدا کو کل شب
کہ لوگ مجھ جیسے بے ضرر سے ڈرے ہوئے ہیں
پھر ایک دن ہم نے زندگی کا سراغ پایا
پھر ایک دن ہم نے کہہ دیا ہم مرے ہوئے ہیں
ندیم بھابھہ