اس بار اس کے ہجرکا شکوہ نہیں کیا
اس باراس کا وصل ہی اچھا نہیں لگا
اس بار میرے شوق کی بانہیں نہیں کھلیں
اس بار خود ہی وہ مرے سینے سے آ لگا
اس بار میل جول میں وارفتگی نہ تھی
اک دوسرے کو آج سنبھالا نہ جا سکا
اس بار انتظار کی سُولی نہیں سجی
اس بار بامِ شوق پر کوئی دیا نہ تھا
اس بار اس نے پاوں کے چھالے نہیں گنے
بس بے دلی کے ساتھ مجھے دیکھتا رہا
اس بار اُس کی ہار یقینی تھی اس لئے
اس بار ہم سے کھیل ہی کھیلا نہیں گیا
یہ وصل رات وقت سے پہلے ہی ڈھل گئی
اس بار اس کی زلف کا جادو نہیں چلا
اس بار اس کی آنکھ کے جگنو بھی مر گئے
اس بار میرے خواب کا پنچھی بھی اڑ گیا
افتخار شاہد ابو سعد