ایسا خاموش تو منظر نہ فنا کا ہوتا
میری تصویر جو گرتی تو چھناکا ہوتا
یوں بھی اِک بار تو ہوتا کہ سمندر بجتا
کوئی احساس تو دریا کی اَنا کا ہوتا
سانس موسم کی بھی کچھ دیر کو چلنے لگتی
کوئی جھونکا تری پلکوں کی ہَوا کا ہوتا
کانچ کے پار ترے ہاتھ نظر آتے ہیں
کاش خوشبو کی طرح رنگ حنا کا ہوتا
کیوں مری شکل پہن لیتا ہے چھپنے کیلئے
ایک چہرہ، کوئی اپنا تو خُدا کا ہوتا
گلزار