قہقہوں کے سائے میں گمشدہ پیاس کا سفر (حصہ چہارم)
پلوشہ کاباکو میں پہلی رات
جب پلوشہ باکو پہنچی تو سورج غروب ہو چکا تھا، اور شہر کی روشنیاں ایک نئی دنیا کا منظر پیش کر رہی تھیں۔ تھکن اور ذہنی کشمکش کے عالم میں وہ یہ سوچنے پر مجبور تھی کہ کسی ہوٹل میں روم لیا جائے یا گوکچے کی دی گئی گولیوں کا سہارا لیا جائے۔ لیکن ایک لمحے بعد، اس کے چہرے پر پراسرار مسکراہٹ ابھری۔
گوگل میپ پر سرچ کرتے ہوئے اس نے ایک معروف جگہ کا انتخاب کیا جہاں سیاحوں کی بڑی تعداد آتی تھی۔ کچھ دیر بعد، وہ "دی فینکس پب” کے دروازے پر موجود تھی۔ ایک پہریدار نے اسے خوش آمدید کہتے ہوئے دروازہ کھولا، اور وہ اندر داخل ہو گئی۔
پب کے اندر کا ماحول روشن اور شور سے بھرپور تھا۔ مختلف قومیتوں کے لوگ، قہقہوں اور باتوں کی گونج، اور بئیر کے گلاسوں کی ٹکر کی آواز نے جگہ کو زندگی سے بھر دیا تھا۔ پلوشہ نے ایک خالی میز کا انتخاب کیا اور وہاں جا کر بیٹھ گئی۔
کافی کا آرڈر دے کر اس نے ہلکی چسکیوں کے ساتھ اردگرد کا جائزہ لینا شروع کیا۔ اب اس کی آنکھوں میں شکاری کی سی چمک تھی۔ کچھ دیر بعد، اس کی نظر ایک سفید کوٹ اور پینٹ میں ملبوس آئرش نوجوان پر پڑی، جو کاؤنٹر پر بیٹھا بئیر کے گلاس پر گلاس خالی کر رہا تھا۔
پلوشہ نے کبوتر کی چال چلتے ہوئے اس نوجوان کے قریب جا کر کہا، "بیوی چھوڑ گئی یا محبوبہ کی بے وفائی کا ماتم منا رہے ہو؟”
نوجوان، جو اس وقت گہرے خیالوں میں گم تھا، ایک دم چونک کر گھبراہٹ میں بولا، "ت-تم۔۔۔ کیسے جانتی ہو؟”
پلوشہ نے قہقہہ لگاتے ہوئے جواب دیا، "میرے جان کے گوشے، تمہاری حالت تمہارے راز چیخ چیخ کر بتا رہی ہے۔”
نوجوان نے ہچکچاتے ہوئے کہا، "میری بیوی واقعی میرے پڑوسی کے ساتھ بھاگ گئی ہے۔”
پلوشہ نے قہقہے کے ساتھ کہا، "چلو خیر، یہ تو عام بات ہے۔” پھر اس نے ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے کہا، "میں پلوشہ ہوں، افغانستان سے۔ اور تم؟”
آئرش نوجوان نے اپنا ہاتھ ملاتے ہوئے کہا، "میں رے کینیڈی ہوں، لیکن تم مجھے صرف رے کہہ سکتی ہو۔”
پلوشہ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا، "اور تم مجھے پیار سے پلو کہہ سکتے ہو۔”
بات چیت کے دوران پلوشہ نے افسردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا، "ابھی باکو پہنچی ہوں، لیکن تمام ہوٹل مکمل بھرے ہوئے ہیں۔ میرے پاس کوئی جگہ نہیں ہے۔”
یہ سنتے ہی رے نے کہا، "یہ کیا بات ہوئی؟ اگر تمہیں برا نہ لگے، تو میرے روم میں ٹھہر سکتی ہو۔ وی آئی ڈبل بیڈ روم ہے، جگہ کافی ہے۔”
پلوشہ کے دل میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، مگر اس نے ظاہر نہیں ہونے دیا۔ اس نے جواب دیا، "شکریہ، لیکن میں تمہاری مہمان نوازی کا ایک جام پی کر جشن منانا چاہتی ہوں۔ یہ پہلی بار ہوگا کہ میں شراب کو حلق سے نیچے اتاروں گی، مگر تمہارے لیے زہر بھی ہو تو پی لوں گی۔”
پلوشہ نے رے کے ساتھ بیٹھ کر تین جام بئیر پیے۔ وہ جھومتی ہوئی، ہنستی مسکراتی، اور اپنے سفر کی باتیں کرتی رہی۔ رے بھی اس کے قصے سن کر مسرور تھا۔ کچھ دیر بعد، دونوں رے کے روم میں پہنچے۔
رے کا روم خوبصورت اور کشادہ تھا، مکمل آرام دہ فرنیچر کے ساتھ۔ جیسے ہی وہ اندر داخل ہوئے، پلوشہ نے اپنی جیکٹ اتار کر کرسی پر رکھی اور بیڈ پر بیٹھ گئی۔ رے نے کہا، "یہاں تم آرام سے رہ سکتی ہو۔ کوئی مسئلہ ہو تو مجھے بتانا۔”
پلوشہ نے مسکراتے ہوئے کہا، "تم نے آج میرے لیے بہت کچھ کیا، رے۔ میں اس کی قدر کرتی ہوں۔”
نشے کی حالت میں دونوں کے درمیان گفتگو مزید بے تکلف ہو گئی۔
صبح جب پلوشہ جاگی، تو وہ تازہ دم محسوس کر رہی تھی۔ رے نے ناشتہ تیار کر رکھا تھا۔ پلوشہ نے ناشتہ کیا، رے کا شکریہ ادا کیا، اور کہا، "اب مجھے اپنے سفر پر نکلنا ہوگا۔”
رے نے مسکراتے ہوئے کہا، "میرا خیال ہے کہ یہ ملاقات ہماری قسمت میں تھی۔ اپنا خیال رکھنا، پلو۔”
پلوشہ نے الوداعی بوسہ دیا اور اپنی بائیک پر سوار ہو کر ایک نئی منزل کی طرف روانہ ہو گئی۔
شاکرہ نندنی