یہاں پارلیمنٹیرین بیٹھیں گے،
آپ کو پیچھے سرکنا ہوگا۔
یہاں قونصل خانوں کے افسران جلوہ گر ہیں
لفظوں کو مزید پیچھے ہٹنا ہوگا۔
لڑھکتے لڑھکتے،
میں کرسیوں کے آخری سرے تک جا پہنچی ہوں ،
جہاں خبروں کے سوداگر، چینل والے، ریڈیو والے،
اپنے حصے کی روشنیاں سمیٹ رہے تھے۔
مجھے کہا گیا—
ذرا اور پیچھے ہو جائیے
یہاں سیلفیوں کا جشن ہے،
یہاں ٹک ٹاک پر لمحے بکتے ہیں،
یہاں فیس بک پر "لائیو” لمحے امر ہوتے ہیں۔
آپ… اور پیچھے ہو جائیے۔
یوں میں مفید معززینِ شہر کے لیے نشستیں خالی کرتے کرتے
آخری میز کی آخری کرسی پر جا ٹھہری ہوں۔
اور تب!
یونہی ایک خیال بجلی کی طرح کوندتا ہے،
میں لکھاری ہوں،
میری مخصوص نشست کہاں ہے؟
اعتماد سے اٹھتی ہوں،
منتظمین میں سے کسی ایک کو پکڑتی ہوں،
لبوں پر غرور کا ہلکا سا عکس لیے پوچھتی ہوں،
شہر کے ادیبوں کی نشستیں کہاں ہیں؟
سارا ہال گونج اٹھتا ہے،
قہقہوں کی آواز بلندی پر جاتی ہے۔
جواب آتا ہے:
ادیبوں کی جگہ کہیں نہیں ہوتی،
کم از کم ہماری کمیونٹی کے فنکشنز میں تو نہیں۔
انہیں جہاں جگہ ملے، وہیں سما جاتے ہیں
میں لمحہ بھر ٹھہر کر پوچھتی ہوں،
یہ کرسی تو مل گئی…
مگر یہاں سے دیکھوں گی کیسے؟
سنوں گی کیسے؟
منتظمین مسکرا کرکہتے ہیں:
آپ کو دیکھنے کی ضرورت بھی نہیں۔
جتنا کم دیکھیں،
جتنا کم سنیں،
مجموعی ماحول کی خوشگواری کے لیے اتنا ہی اچھا ہوگا۔
آپ کا پروٹوکول میں یہی حصہ بنتا ہے
آپ کے لیے یہی جگہ بہتر ہے ۔
اور آگے—
سیلفیوں میں گم،
لائیو اسٹریم میں محو
چہرے ،ایک نمائش میں گھومتے ہوئے
منظر ،اپنی چمک میں مجھ سے بہت دور ہوتے جاتے ہیں
میں اپنے کونے میں بیٹھی
دروازے سے آنے جانے والوں کو تاڑتی ہوں،
یا خود کو لتاڑتی ہوں۔
ایک لکھاری ہوں
اس کے علاوہ کر بھی کیا سکتی ہوں
روبینہ فیصل