اردو شاعریاردو غزلیاتثمینہ راجہ

آسماں کوئی جو تا حد نظر کھولتا ہے

ایک اردو غزل از ثمینہ راجہ

آسماں کوئی جو تا حد نظر کھولتا ہے
طائر جاں بھی یہ بھیگے ہوئے پر کھولتا ہے

نام آتا ہے مرا ہجر کی سرگوشی میں
تیری محفل میں کوئی لب بھی اگر کھولتا ہے

دور سے ایک ستارہ چلا آتا ہے قریب
اور اس خاک پہ اک راز سفر کھولتا ہے

لوٹنے والے ہیں دن بھر کے تھکے ہارے پرند
اپنے آغوش محبت کو شجر کھولتا ہے

موجۂ باد صبا بھی جو کبھی چھو جائے
ایسا لگتا ہے مرا زخم جگر کھولتا ہے

غیر سب جمع ہوئے آتے ہیں پرسش کے لیے
کوئی اس حال میں کب دیدۂ تر کھولتا ہے

کون کرتا ہے زمانوں کا سفر اس دل تک
دیکھئے کون اب اس قصر کا در کھولتا ہے

صورت صبح بہاراں چمن آراستہ ہے
چہرہ شاداب ہے اور پیرہن آراستہ ہے

شہر آباد ہے اک زمزمۂ ہجر سے اور
گھر تری یاد سے اے جان من ! آراستہ ہے

جیسے تیار ہے آگے کوئی ہنگامۂ زیست
اس طرح راہ میں باغ عدن آراستہ ہے

کوئی پیغام شب وصل ہوا کیا لائی
روح سرشار ہوئی ہے، بدن آراستہ ہے

اے غم دوست!تری آمد خوش رنگ کی خیر
تیرے ہی دم سے یہ بزم سخن آراستہ ہے

دل کے اک گوشۂ خاموش میں تصویر تری
پاس اک شاخ گل یاسمن آراستہ ہے

رامش و رنگ سے چمکے ہے مرا خواب ایسے
نیند میں جیسے کوئی انجمن آراستہ ہے

اس نے سورج کی طرح ایک نظر ڈالی تھی
رشتۂ نور سے اب بھی کرن آراستہ ہے

کیا کسی اور ستارے پہ قدم میں نے رکھا
کیسی پیراستہ دنیا، زمن آراستہ ہے

کیسے آئے گا زمانہ مجھے ملنے کے لیے
میرے رستے میں تو دنیائے فن آراستہ ہے

ثمینہ راجہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

Back to top button