آئینے کے جب منظر افتاد میں ڈھلتے ہیں
تب جاکے کہیں پیکر ایجاد میں ڈھلتے ہیں
ہم چپ ہیں میاں لیکن تاریخ بتا تی ہے
کچھ لوگ یہاں مر کر بنیاد میں ڈھلتے ہیں ہیں
یادوں کی ان آنکھوں میں اک لاش ہے لاوارث
سو اشک مرے اکثر فریاد میں ڈھلتے ہیں
موجودہ روایت تو مصنوعی بناوٹ ہے
سو چھوڑ کے یہ محور بنیاد میں ڈھلتے ہیں
میں نے ہی تراشا ہے ہاتھوں سے جنہیں اپنے
اسعد وہ سبھی پتھر ہمزاد میں ڈھلتے ہیں