ہم عظیم ، تم حقیر
اکتوبر 31, 1984 کو ہندوستان کی وزیر ِ اعظم محترمہ اندرا گاندھی کو ۱ صفدر جنگ روڈ پر ان کے اپنے باڈی گارڈز نے گولیوں سے چھلنی کر
دیا تھا۔ آج اس بات کو 35سال ہو گئے۔۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا انڈیا اس سانحے سے ابھی بھی باہر آسکا ہے؟ یا ایسے سانحے نسلوں تک اپنا اثر لئے رکھتے ہیں؟ انڈیا میں اندرا گاندھی کو آج بھی آئرن لیڈی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
وہ،پنڈت جواہر لعل نہرو کی پتری تھیں۔ اور وہ انہیں صرف ایک سیاست دان یا لیڈر ہی نہیں بلکہ اس ملک جسے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بنانے میں ان کا سب سے بڑا ہاتھ تھا، اپنی بیٹی کو اس ملک پر حکمرانی کرتے دیکھنا چاہتے تھے۔ کہا جا تا ہے کہ ان کی بیٹی ان کی کمزوری تھی اور اسی لئے انہوں نے اس کی سیاسی تربیت اپنی زندگی ہی میں شروع کر دی تھی۔ بلکہ میں تو کہتی ہوں جب نہرو جیل میں بیٹھے اپنی ۱۱ سالہ بیٹی کو خطوط میں دنیا کی تاریخ بتا یا کرتے تھے تو وہ ایک ایسی عورت کو تیار کر رہے تھے جو مستقبل میں ایک بڑی لیڈر بن کر ابھرے گی۔ کہا جاتا ہے کہ اندرا گاندھی کو آئینہ دیکھنے کی بھی عادت نہیں تھی کہ سیاست ہی اس کی رگ رگ میں اتری ہو ئی تھی۔۔ چہرے کو حسین بنانے کومیک اپ کے قریب تک نہ جاتی تھیں کاسمیٹکس سرجری تو دور کی بات ہے۔۔
اندراگاندھی کی مضبوطی اور اعتماد کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے کیونکہ بات سچی تعریف کی ہو تو ہم دشمنوں کی بھی کر نے سے نہیں چوکتے۔۔ مگر حیرت اس وقت ہو تی ہے جب دوسری طرف نیوٹرل ہو نے کے دعوی دار، بڑے بڑے امن پسند اور عظیم لوگ جب چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی تعصب کر تے نظر آتے ہیں۔ اپنے ملک سے اندھی محبت،اپنے آپ پر جائز یا ناجائز فخر اور اپنے لیڈروں کو دنیا کا عظیم لیڈر بنا کر پیش کرنا کوئی ہندوستانیوں سے سیکھے۔۔۔
اندرا گاندھی کی برسی ہے اور کچھ سالوں سے میری ایک عادت ہے کسی مشہور شخصیت کی تاریخ پیدائش یا موت کی تاریخ یاد ہو تو اس دن اس کے بارے میں کچھ نہ کچھ پڑھنے لگتی ہوں۔۔ ذاتی لائیبریری سے کتاب نکل آئے تو کیا کہنے ورنہ اب تو یو ٹیوب پر دستاویزی فلموں نے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔میں ہر مہینے میں ایک نسبت باندھ کے رکھتی ہوں اور اکتوبر کا مہینہ خزاں، ہیلو وین کے ساتھ ساتھ میں نے اندرگاندھی کے قتل کے حوالے سے منسوب کر رکھا ہے۔عجب اتفاق ہوا کہ اکتوبر کے شروع میں ہی،پاکستان سے تازہ تازہ لائی گئی کتابوں کے ذخیرے میں سے کلدیپ نئیر صاحب کی کتاب کا مطالعہ شروع کر رکھا تھا۔ کلدیپ نئیر، جنہوں نے اپنی صحافت کا آغاز، اردو زبان سے کیا تھا، پاکستان میں بھی اتنے ہی جانے پہچانے جاتے ہیں جتنے انڈیا میں۔ سیالکوٹ میں پیدا ہو نے والے ان صحافی کا اعزاز یہ ہے جو انہیں باقی صحافیوں سے ممتاز کرتا ہے کہ ان کی صحافت تقسیم ہند سے پہلے اور بعد کے کئی سالوں پر محیط ہے۔ “لیڈرز اور آئی کونز” نامی اس کتاب میں مجھے دلچسپی یوں ہو ئی کہ یہ مشہور شخصیتوں کے خاکوں پر مبنی کتاب ہے۔ تاریخ کی خشک کتابوں میں مشہور لیڈروں کو پڑھنا اور بات ہو تی ہے مگر اگر کسی کو یہ اعزاز ہو کہ وہ قائد اعظم سے بھی ملا ہو، گاندھی جی سے بھی ملا ہو، نہرو، خان غفار، بھٹو، مجیب سے ہو تا ہو ا اندرا گاندھی اور نر یندر مودی تک پہنچا ہو تو ایسی کتاب کی کشش دس گنا بڑھ جاتی ہے اور ہم جیسے تاریخ میں مختلف انداز سے گھس گھس کر جھانکنے والوں کے لئے تو جیسے کوئی موتی ہاتھ لگ گیا ہو۔۔۔
محمد علی جناح پر لکھی جانے والی اندرونی بیرونی رائٹرز کی سب کتابیں ایک طرف اور سعادت حسن منٹو کا جناح صاحب کے ڈرائیور آزاد سے انٹرویو سے کھینچا ہوا خاکہ دوسری طرف۔ وہ خاکہ مجھے جناح پر لکھی گئی سب کتابوں سے بھاری معلوم ہوتا ہے۔خیر یہی سوچ کر نئیر صاحب کی آسان سی انگریزی میں لکھی کتاب جلدی جلدی پڑھنا شروع کی اور جوش میں کچھ تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے دوستوں کو بھی بتا دیا۔ کتاب پڑھ کر میری رائے یہ بنی کہ کتاب پڑھنی ضرروی تھی مگر اپنی اپنی خرید کرنہیں۔۔۔۔ اس سے ایک بات بڑی پکی ثابت ہو تی ہے کہ چاہے انسان مرنے سے پندرہ دن پہلے کتاب مکمل کرے (کلدیپ نئیر صاحب انتقال کر گئے تھے)، چاہے وہ پاکستان میں پیدا ہوا ہو، چاہے وہ مسلمان ہندو اتحاد کا خواہش مند ہو، چاہے وہ بھارت اور پاکستان کی دوستی کا دل سے خواہش مند ہو، چاہے وہ کتنا ہی تجربہ کار صحافی کیوں نہ ہو وہ پھر بھی ایک پکا ہندو اور ہندوستانی (آجکل تو یہی لگتا ہے کہ ہندوستان صرف ہندوؤں کا ہے) تعصب سے بھری ڈنڈی ضرور چلا دیتا ہے۔۔ وہ باز رہ ہی نہیں سکتا۔
چونکہ اندرا گاندھی کی برسی ہے، ان کے متعلق،اس کتاب کے حوالے سے پہلے بات کر لی جائے۔۔ کلدیپ صاحب کو جہاں اندرا گاندھی کو لال بہادر شاستری سے مقابلہ کروانا ہے وہاں تو وہ ان کی کھل کے برائی کرتے نظر آتے ہیں مگر جہاں اندرا گاندھی کے مقابلے ذالفقار علی بھٹو کی بات آجاتی ہے تو اندرا ایک قد آوار لیڈر اور بھٹو ایک چھچھورا سا،ٹپوری سا لگنے لگتا ہے ۔۔ انہوں نے اس کتاب میں بھٹو کو خود پرست،موقع پرست اور مغرور کھل کھلا کر کہا ہے۔۔ مگر انہی خواص کی حامل اندرا گاندھی کے بارے بڑے نرم الفاظ استعمال کئے ہیں۔۔ نہرو، جو جمہوریت جمہوریت کی رٹ لگائے رکھتے تھے(گو کہ سیاست کی ٹرینینگ کرنا ایک اور بات ہے)مگر، اپنی بیٹی کو جب کسی مغل بادشاہ کی طرح اپنے بعدکانگریس کا صدر اور ملک کا وزیر اعظم بنا دیکھنا چاہتے ہیں تو ایسی غیر جمہوری سوچ پر کلدیپ جی صرف یہ لکھتے ہیں کہ لال بہادر شاستری کہتے تھے؛”نہرو جی کے من میں تو بس ان کی پتری ہے”۔۔ اور خود بڑے نرم الفاظ میں کہتے ہیں ;کہ” نہرو کی کمزوری ان کی بیٹی تھی ”
۔۔بس۔ سیرسیلی۔ بس اتنا ہی۔؟
کلدیپ جی،اندرا گاندھی کی 1975 میں نافذ کی گئی ایمرجنسی کا ذکر آتا ہے تو بس ہلکا سا چھو کر گزر جاتے ہیں۔ 1984میں ہندوستانی فوج نے سکھوں کے گولڈن ٹمپل میں گھس کر جس طرح آزادی پسندوں کو دہشت گردی کے نام پر قتل کیا،جس کے ردِ عمل کے طور پر بینت اور ستونت سنگھ نے اندرا گاندھی کے باڈی گارڈ ہو تے ہو ئے بھی اسے بیس یا تیس گولیوں سے بھون دیا تھا۔۔ اور پھر اس کے بدلے تین نومبر تک جس طرح دلی پو لیس آنکھیں بند کر کے بیٹھی رہی جس کے نتیجے میں ۰۰۰۳ سکھ صرف دلی اور بہار میں مارے گئے اور راجیو گاندھی نے صرف یہ کہا:”بڑا شہتیر گرتا ہے تو اتنی کو زمین تو ہلتی ہے۔۔” پنجاب کے سکھوں کے مطالبے نہ ماننا اور اس محرومی کے بدلے اگر وہ ہتھیار اٹھا لیں تو انہیں کچلنا۔۔ اس بارے کلدیپ نئیر ہی خاموش نہیں، انڈیا کا بڑے سے بڑا انسانی حقوق کا چئیمئین بھی زبان نہیں کھولتا۔۔ اور یہی صورتحال جب پاکستان میں ہو۔۔ مشرقی بنگال ہے۔۔خالصتانیوں جیسے مکتی باہنی ہیں جو مزاحمت اور احتجاج کے نام پر بہاریوں کو یا نان بنگالیوں کو قتل اور ریپ کرتے ہو ئے۔۔ انہیں روکنے والی فوج نئیر صاحب کے بقول oppresor، ظالم، اور جابر ہے تو ہندوستانی فوج 1984 میں کیا تھی؟ ا ندرا کی والی1975 ایمرجنسی کیا تھی؟ آپ نے ان کے لئے وہی الفاظ استعمال کیوں نہیں کئے؟ مرنے سے کچھ دن پہلے مکمل ہو نے والی کتاب میں بھی ایک ہندوستانی، ہندوستان سے محبت کی عینک نہیں اتار سکتا۔ اسی لئے میں نے کہا کتاب پڑھو ضرور، تاکہ پاکستانیوں کو پاکستان سے محبت کا طریقہ آئے۔ کیسے اپنے بڑے بڑے گناہوں پر پردہ اور دوسروں کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں کو اچھا لا جاتا ہے۔
ان کی بھٹو سے نفرت بھی معاف کر دوں مگر کلدیپ صاحب جیسا بندہ جب نہرو اور گاندھی یا پاٹیل کی بات کرے تو لفظوں سے بھی احترام کا شیرہ ٹپکتا نظر آئے۔۔ (لکھتے ہیں نہروکے خطاب کے وقت عورتیں صرف انہیں دیکھنے آیا کرتی تھیں اور عقیدت میں لتھڑے لوگ ہوا کرتے تھے)اس کے برعکس محمد علی جناح کا 1940 میں لاہور لا ء کالج جہاں کے کلدیپ اس وقت سٹوڈنٹ تھے کے خطاب کے بارے میں لکھتے ہو ئے کہتے ہیں کہ:” جس مسلم لیگی سٹوڈنٹ نے انہیں بلا یا تھا، اس سے کمرہ نہیں بھر رہا تھا۔۔ہال خالی تھی اور ہم جیسے نان مسلمز کومنتیں کر کے سیٹیں بھرنے کی کوشش کی تھی “۔۔ سچ۔۔ سیرسیلی۔۔ محمد علی جناح اس وقت تک بھی مسلمانوں میں اتنے غیر مقبول تھے ؟
کیبنٹ پلان کا ذکر تو کیا مگر یہ لکھنے کی ہمت نہ ہو ئی کہ اسے کس نے نامنظور اور کس نے منظور کیا تھا۔انتہائی کامیابی سے پیچھے کو چھلانگ مار کر 1937 میں جا پہنچے، اور جناح کی اس وقت کی کہی بات کو قوٹ کر دیا۔ گاندھی جی کا تقسیم پر رونا دھونا تو لکھا مگر یہ نہ بتایا کہ تقسیم جناح کی وجہ سے ضرور ہو تی اگر نہرو اور پٹیل کیبینٹ مشن پلان منظور کر لیتے۔جس میں متحدہ ہندوستان کی بات تھی۔ اس کتاب میں، نہرو، گاندھی اور پٹیل کو آزادی کے سچے سپاہی تو دکھا دیا مگر جناح کے بارے میں بات کرتے ان کی اس بیماری کا ذکر تک نہ کیا، جو انہیں لاحق تھی، اور انہیں پتہ تھا کہ میں جی نہیں سکوں گا پھر بھی وہ مسلمانوں کے حقوق کی آئینی جنگ لڑتے رہے۔۔ ان کی بے غرضی پر لکھنے کو ایک لفظ نہیں تھا؟ تاکہ ان کے نام کے ساتھ لگا یہ پروپیگنڈا ماند نہ پڑ جائے کہ وہ الگ ملک کا سربراہ بننے کے لئے یہ سب جد و جہد کر رہے تھے۔
ہندو مسلم پانی کا ذکر کیا،، مگر اس طرح جیسے یہ بھی مسلم لیگ کی اصطلاح ہو۔۔ وہ تو اسی کے ڈسے ہو ئے تھے اسی وجہ سے تو الگ ملک مانگ رہے تھے، جب ہندو مذہب کی تنگی کو سلطنت پر پھیلے تصور کرتے تھے تو، انہیں اقلیتوں پر زمین تنگ نظر آتی تھی۔ جناح کی وہ پیشن گوئیاں جو پو ری نہ ہو ئیں،” سب مل جل کر رہیں گے۔”، جیسی۔۔ ان کا ذکر تو کیا مگر اس پیشن گوئی کا کیا ہواجب انہوں نے کہا تھا کہ اس ہندوستان میں مسلمان تمام عمر اپنی وفا داریاں ثابت کرتے رہیں گے۔۔ پھر ماؤنٹ بیٹن کی اس پیش گوئی کا تو ذکر کیا کہ پاکستان پچیس سال میں ختم ہو جائے گا اور بنگلہ دیش بننے کو اس کے ساتھ جوڑ بھی دیا مگر نہرو اور پاٹیل کی ان پیش گوئیوں یا بر ی نیتوں کا نہیں بتایا کہ ان کہ دیکھئے گا یہ کمزور سا پاکستان چند ماہ میں ہی ہندوستان میں پھر سے واپس آملے گا۔۔دو قومی نظریہ اتنا بھی گیا گزرا ہوتا تو کم از کم مشرقی بنگال ہی واپس مغربی بنگال کو جا ملتا۔۔کچھ اور بھی تاریخی حقائق مسخ کئے گئے ہیں جو ایک عام طالبعلم کو بھی نظر آجائیں۔۔۔
شملہ معاہدہ میں اندرا گاندھی کو ہیروئن اور بھٹو کو ایک خوش فہم بے وقوف دکھانے کی کوشش بھی خوب رہی۔۔ حالانکہ شملہ معاہدہ، بھٹو سے ہزار نفرت کرنے والے بھی اس کی سفارتی کاری کی کامیابی ہی سمجھتے ہیں۔۔لیکن چونکہ بھٹو کلدیپ صاحب کے سامنے یہ پھڑ مار چکے تھے کہ میں پو رے برصغیر کا وزیر اعظم بننے کے قابل ہوں۔یہ بات کسی بھی ہندوستانی کو کیسے ہضم ہو سکتی ہے؟ ان کے لیڈر جیسے بھی ہوں، مگر جب بات کسی پاکستانی کی ہو یا ہمارے کسی لیڈر یا ہیرو کی تو ہمیں کمتر ہی رہنا چاہیئے۔۔
یہ کتاب پڑھ کر مجھے اپنے ملک کے ان نام نہاد دانشوروں اور لبرلز پرشرم محسوس ہو ئی کہ کیسے یہ اپنی ہر چیز سے شرماتے اور اپنی ہر بات میں کیڑے ڈالتے ہیں۔۔ اور غیروں کے جھوٹے پروپیگنڈے اور جھوٹی تعریفوں کے جال میں ایسا پھنستے ہیں کہ ہر وقت تھپڑوں سے اپنا ہی منہ لال کئے رکھتے ہیں۔۔۔ سکھوں کے خون سے جس خاتون کے ہاتھ رنگے ہو ئے ہیں وہ آئرن لیڈی ہے اور آپ کی فوج غاصب اور جابر۔اپنے اندر اپنے وطن کی محبت جگانے کے لئے مرتے ہو ئے شخص کی جھوٹوں پر مبنی یہ کتاب ضرور پڑھیں مگر خرید کر نہیں۔
روبینہ فیصل