مسکرا کر بھی مری افسردگی باقی رہی
اُس کے کھو جانے کی شاید رنج گی باقی رہی
میرے دل کو رَوند کر پاؤں تلے وہ چل دیا
دھڑکنوں میں پھر سدا پژمردگی باقی رہی
دل کے آنگن میں جلائے ہم نے یادوں کے چراغ
پھر بھی شامِ ہجر و غم کی تیرگی باقی رہی
موت سے پہلے تلک جینا ہے لازم اس لیے
بعد از فرقت بھی میری زندگی باقی رہی
وقتِ رخصت سر جھکا کر بس کہا تھا الوداع
ہم کلامی کی اگرچہ تشنگی باقی رہی
خامشی سے اس کی ناراضی کو دل پر سہہ لیا
میری فطرت میں تھی جو شائستگی باقی رہی
مندمل کر تو دیا تھا وقت نے زخمِ جگر
میری آنکھوں میں مگر بےچارگی باقی رہی
بھول کر مجھ کو وہ اپنی ذات میں گم ہو گیا
پھر بھی میرے نام سے وابستگی باقی رہی
منزّہ سیّد