اردو غزلیاتشعر و شاعریعمیر نجمی

جدھر کھڑا تھا، نہیں ہوں اُدھر، کدھر گیا میں؟

عمیر نجمی کی ایک اردو غزل

جدھر کھڑا تھا، نہیں ہوں اُدھر، کدھر گیا میں؟
بِنا بتائے مجھے چھوڑ کر، کدھر گیا میں؟

تمام ممکنہ جگہیں تو دیکھ آیا ہوں
نہ راہ میں ہوں، نہ دفتر، نہ گھرــــ کدھر گیا میں؟

گزشتہ رات اکٹّھے تھے ایک دوست کے ہاں
تمام دوست پلٹ آئے، پَر، کدھر گیا میں؟

کسی جگہ کا محلِّ وقوع یاد نہیں
وگرنہ تم کو بتاتا، کدھر کدھر گیا میں

میں راہ چلتے ہوؤں کو بُلا کے پوچھتا ہوں
جناب! دیکھا کہیں مجھ کو؟ سَر! کدھر گیا میں؟

غلَط پتے کی طرح اجنبی لگی ہے زمیں
کدھر اترنا تھا میں نے، اتر کدھر گیا میں؟

یہ باوثوق ذرائع کی اطّلاع ہے دوست !
یہیں کہیں تھا گھڑی پیش تر، کدھر گیا میں؟

کسی کے ہجر کو رویا، کسی سے وصل کے بیچ
کدھر شکستہ ہوا اور بکھر کدھر گیا میں

بدن کی نرم تمازت کو چھوڑ کر’ نجمیؔ !
یہ سرد رات کے پچھلے پہَر ــ کدھر گیا میں؟

عمیر نجمی

سائٹ ایڈمن

’’سلام اردو ‘‘،ادب ،معاشرت اور مذہب کے حوالے سے ایک بہترین ویب پیج ہے ،جہاں آپ کو کلاسک سے لے جدیدادب کا اعلیٰ ترین انتخاب پڑھنے کو ملے گا ،ساتھ ہی خصوصی گوشے اور ادبی تقریبات سے لے کر تحقیق وتنقید،تبصرے اور تجزیے کا عمیق مطالعہ ملے گا ۔ جہاں معاشرتی مسائل کو لے کر سنجیدہ گفتگو ملے گی ۔ جہاں بِنا کسی مسلکی تعصب اور فرقہ وارنہ کج بحثی کے بجائے علمی سطح پر مذہبی تجزیوں سے بہترین رہنمائی حاصل ہوگی ۔ تو آئیے اپنی تخلیقات سے سلام اردوکے ویب پیج کوسجائیے اور معاشرے میں پھیلی بے چینی اور انتشار کو دورکیجیے کہ معاشرے کو جہالت کی تاریکی سے نکالنا ہی سب سے افضل ترین جہاد ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button