- Advertisement -

کوکن کا نسائی ادب

ڈاکٹر صادقہ کا اردو مضمون

کوکن کا نسائی ادب

تانیثی ادب دراصل فیمینزم ہے۔اور سچ پوچھئے تو یہ خالصتاََ یوروپ کے لیے ہے۔یوروپ میں جیسی آزادی اور برتری وہاں کی کچھ مغربی عورتوں کو چاہئے وہ ہماری تہذیب اور رواج میں فِٹ نہیں ہوتی۔ ہر معاشرے کی تہذیب اور تمدن کی کچھ حدودہوتی ہیں۔ تانیثیت نام کی کوئی چیز ہمارے یہاں نہیں ہے۔ہم اسے نِسائی کہہ سکتے ہیں۔یعنی women’s literature

کوکن کے نسائی ادب پر گفتگو کرنے سے پہلے آئیے کوکن کی جغرافیائی حدود کو سمجھیں۔مہاراشٹر گوا اورکرناٹک کے مغربی ساحل کا علاقہ کوکن کہلاتا ہے۔کوکن کے سات ڈیویزن ہیں۔یعنی سات ضلعے۔پال گھر، تھانہ، ممبئی شہر، مضافاتی ممبئی، رائے گڑھ، رتناگری اور سِندھو دُرگ۔کرناٹک میں یہ کاروار، انکولا، کُمٹا، ہوناور تک پھیلا ہوا ہے۔کوکن کا سب سے بڑا شہر ممبئی ہے۔ یہاں کے اصلی باشندے مالونی، آگری، کولی، کوکنستھ مراٹھا، بھنڈاری، گوڑ سارسوت برہمن، کُمبھار، راجہ پور سارسوت برہمن، گابِت، پڑتی، چِت پون، دَیونجنا، کُڈال دیشکر برہمن، کُروبا اورکُُنبی۔قبائلیوں میں کونکنا، وارلی، کولچا(جو جنوبی گجرات کے باشندے ہیں)، دادرا اوررائے گڑھ اور رتناگری میں کاتکری پائے جاتے ہیں۔
کوکن میں اکثریت ہندوؤں کی ہے۔ بودھ، عیسائی اور مسلمان اقلیت میں ہیں۔
کوکن کی تعلیمی سطح جس طرح اوپر آئی ہے اور خاص طور پر آزادی کے بعد، وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔اردو کو پھلنے پھولنے کے لیے جس تعلیمی بنیاد کی ضرورت ہے، اس لحاظ سے بھی کوکن بہت زرخیز ہے۔کوکن کے لوگ عموماً گھروں میں کوکنی بولتے ہیں۔ لیکن گھر سے باہروہ اردو بولتے ہیں۔مسئلہ شناخت کا ہے۔ جس کو قائم رکھنے کے لیے،اپنی تہذیب اور زبان سے جُڑے رہنے کویہاں فرض سمجھا جاتا ہے۔ دراصل مادری زبان اور ثانوی زبان کے concept بدلتے رہتے ہیں۔ایک طرح سے کہا جا سکتا ہے کہ یہاں کے لوگوں کو دو زبانوں سے محبت ہے۔
کوکنی کا تعلق مراٹھی سے ہے۔وہ مراٹھی کی ایک بولی ہے۔ کوکن سے جو لوگ migrateہوکر یوروپ جا بسے ہیں، ان کے گھروں میں بچے انگریزی میں بات کرتے ہیں۔بچے تھوڑی بہت اردو سمجھ لیتے ہیں لیکن ان کا لب و لہجہ بدل گیا ہے۔گھر کے بڑے اپنی زبان اور تہذیب کی حفاظت کے لیے تھوڑی بہت اردو بول لیتے ہیں۔ یعنی ماں باپ کی مادری زبان اردو اور کوکنی ہے اور بچوں کی انگریزی۔ یعنی مادری زبان ثانوی ہو گئی اور ثانوی مادری۔ یہ صورتِ حال صرف کوکنیوں کے یہاں نہیں ہے، ساری دنیا مادری زبان کے لحاظ سے اِسی میں اُلجھی ہوئی ہے۔ دراصل لِسانیاتی مسائل اُلجھے ہوئے ہوتے ہیں۔ ان میں دلچسپی لینے کی ضرورت ہے اور ان مسائل سے جوجھتے وقتunbiasedرہنا ضروری ہے۔
یہ سچ ہے کہ کوکن نے غالب، اقبال، میر جیسے شاعر اور قرۃ العین حیدر جیسے فکشن نگار پیدا نہیں کئے۔ پھر بھی اس میں دو رائیں نہیں کہ اردو کوکن کی وجہ سے بھی زندہ ہے۔ کچھ لوگ یہاں کے باشندوں کو دوسرے تیسرے درجے کا شہری قرار دینے میں قباحت محسوس نہیں کرتے۔ ان کے تلفظ پر انگلیاں اٹھاتے ہیں۔ہمارے یہاں بھی کچھ اردو اسکول ہیں جن کے استاد ڈ، ڈھ، ڑ، ڑھ کو ’ر‘ بولتے ہیں۔پھربھی ان کی وجہ سے بھی اردو ہے۔ہو سکتا ہے اردو کے دانشور وہاں نہ ہوں۔مگریہاں کے باشندوں کی جڑیں اردو میں ایسی مضبوط ہیں جیسے mangrove یہاں کے لوگوں نے اپنے حقوق کی آواز اٹھاتے ہوئے کئی کئی اسکول شروع کروائے۔انہوں نے اردو کو ڈوبنے نہیں دیا۔کیایہ کوکن والوں کا بڑا کارنامہ نہیں!
فکشن کی دنیا اس علاقے میں کافی خالی سی لگتی ہے۔ شاعری اور مذہب کاکام یہاں بہت ہوا ہے۔ یہاں کے لوگوں کا خاص میلان اوررجحان شاعری کی طرف ہے۔ صحافت کے اعتبار سے بھی کوکن میں اچھا کام ہوا ہے۔ تعلیمی کام بہت ہوا ہے۔یہی بہت بڑی بات ہے۔جن دنو ں کوکن میں پہلااردو اسکول کھلا تھا اُس وقت جنوبی ہند میں اسکول برائے نام ہی تھے۔ اوراب یہ حال ہے کہ کوکن کے ہرگاؤں میں اردو اسکول ہیں۔ہائی اسکولوں کی تعداد سو سے کم نہیں ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اِس وقت مہاراشٹر کے پچیس ہزار اسکولوں میں سے ضلع پریشد کے تقریباًہزار اسکول چل رہے ہیں۔ مہاراشٹر کے تقریباًچار سو اردو ہائی اسکولوں میں کا چوتھا حصہ یعنی سو ہائی اسکول کوکن میں ہیں۔ جبکہ آج اردو کی صورتِ حال یہ ہے کہ اتّرپردیش تک میں اردو میڈیم ہائی اسکول عنقا ہو گئے ہیں۔ اوربہار میں بھی اب چند ایک ہائی اسکول باقی رہ گئے ہیں۔
یہ فیصلہ کرنا بھی بڑا مشکل ہوتا ہے کہ کون کہاں کا ہے۔خالص کوکن کا کون ہے، اِس کا فیصلہ کرنا مشکل ہے۔ روزی روٹی کی تلاش میں یا کسی اور وجہ سے لوگ اپنی رہائش بدل لیتے ہیں۔ مرزا غالب آگرہ میں پیدا ہوئے تھے، دلّی میں ان کا انتقال ہوا۔ کچھ لوگ انہیں غالب ؔاکبر آبادی کیوں نہ کہہ لیں لیکن ان کی پہچان غالبؔ د ہلوی کے نام سے ہے۔ طے کیسے کیا جائے کہ کس خانے میں انسان کو رکھا جائے۔یہ خانے بنتے کیوں ہیں!انسان تو اس دنیا میں آتا ہے۔ پوری دنیا کاحصہ ہوتا ہے اور پوری دنیا اس کی ہوتی ہے۔علاقے ریسرچ کے لیے یا جغرافیائی سہولتوں کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ملک، شہر محلے بنائے جاتے ہیں۔زندگی کا بڑاحصہ جہاں گزرتا ہے اس نام کا ٹھپہ اس شخص پر لگا دیاجاتا ہے۔ میرے آباواجداد کرمان سے مدراس کے ضلع گُنٹور میں آبسے۔میری پیدائش کے بعد میرے والدین گنٹورآندھراپردیش سے ممبئی آ بسے۔ میری اپنی زندگی کا ایک حصہ ممبئی میں گزرا اور اس سے زیادہ رائے گڑھ ضلع کے کھوپولی قصبے میں۔تین دہائیوں تک درس و تدریس میں رہتے ہوئے میرے ناول، افسانوں، ڈراموں کے اور شعری مجموعے، ترجمے، تنقید و تحقیق کی کتابیں منظر ِ عام پر آئی ہیں، مہاراشٹر،اتّرپردیش، بہار، مغربی بنگال اور بھارتیہ بھاشا پریشد نے انعامات سے نوازا ہے۔کیا آپ مجھے رائے گڑھ،کوکن کا نہیں مانیں گے!
کوکن کے علاقوں میں خواتین بھی درس و تدریس اور دوسرے شعبوں میں اپنی قابلیت کا اظہار کر رہی ہیں۔ تنقید و تحقیق رتناگری سے تعلق رکھنے والی اور تحقیق وتنقیدکے اعتبار سے ممبئی کے اسمٰعیل یوسف کالج کی صدر شعبہء اردو ڈاکٹر میمونہ دلوی نے بڑا اہم کام کیا ہے۔”ممبئی میں اردو“، کوکن میں اردو لوک گیت“اور ”دُکھڑے“ ان کے اہم ریسرچ ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے مراٹھی سے کچھ تراجم بھی کیے ہیں۔ میمونہ آپا کی تربیت سے ہم نے ایم اے کے دوران استفادہ کیا۔اب ان کی وراثت کو ان کی بیٹی معزّہ قاضی سنبھالے ہوئے ہیں جو ممبئی یونیورسٹی کی سابق صدر شعبہء اردو اور اسوسئیٹ پروفیسر ہیں۔”اردو میں منظوم عوامی ادب اور لوریاں“، ”اردو میں تحریکِ تعلیمِ نسواں“اور”اردومثنوی کا تنقیدی اور تحقیقی مطالعہ ڈاکٹر معزہ قاضی کی ایسی کتابیں ہیں جن سے چشم پوشی نہیں کی جا سکتی۔ اس کے علاوہ ان کی تدوین کی ہوئی کتاب ”اردو مثنویاں“ اور”اردو سیکھئے“بھی اپنے کام کے لحاظ اہم ہیں۔حمیدہ نارکر نے قصیدے اور نظمیں نہ صرف ا ردو میں بلکہ کوکنی میں بھی لکھیں۔ حمیدہ مجلس کے نام سے انھوں نے کوکنی میں مثنوی لکھی۔عطیہ فیضی عارضی طور پر ممبئی میں رہیں۔ اقبال پر کام کیا۔ تعلیمِ نسواں میں نام کیا۔ مسرت شیخ بچوں کے ڈراموں اور افسانوں کے مراٹھی سے اردو میں ترجمے کئے۔دراصل ترجمہ نگاری بھی ترویج میں معاون ثابت ہوتی ہے۔شیرین دلوی نے اُمِ وجدان کے نام سے لکھنے کی شروعات کی اور صحافت کے علاوہ دو کتابوں کے اردو میں ترجمے کیے۔۱.سندیپ واسلیکر کی مراٹھی کتاب ’ایکادِشے چا شودھ‘ کو ’ایک سمت کی تلاش‘ اور ۲.ڈاکٹر ستیہ پال کی ہندی کتاب کا اردو میں ترجمہ۔ ہماری استادرشیدہ قاضی کا انشائیوں کا مجموعہ ’پرواز‘ کافی متاثر کرتا ہے۔ممبئی یونیورسٹی کی صدر شعبہء اردوپروفیسر رفیعہ شبنم عابدی نے اپنی زندگی کے بیشتر سال ممبئی کی تعلیم و تربیت اور اشعار کے موتی پرونے میں صرف کیے۔ہم نے رفیعہ آپا سے بہت کچھ سیکھا۔
جوش ملیح آبادی کی عزیزہ اصغری بیگم سحرؔکبھی انجمن اسلام میں پڑھایا کرتی تھیں۔ ان کی شہرت اخبار و رسائل میں اشاعت کے ساتھ ساتھ بے بی تبسم کی والدہ کے طور پر بھی تھی۔
نور جہاں انکولوی اور ان کی بھابی صفیہ انکولوی بھی شاعرہ ہیں۔ صفیہ نے حج کا سفر نامہ بھی لکھا ہے۔جیسا کہ عام طورپر دیکھاجاتاہے کہ ہر زبان کی طرح اردو میں بھی بہت سی کتابیں شایع ہوتی رہتی ہیں۔ان کتابوں کا معیار کیا ہے، یہ الگ بات ہے۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر کتاب محض نمائش کے لیے ہے تو بیکار ہے۔کتاب معیاری ہو تبھی اس کا ذکر مناسب ہوتا ہے۔
کوکن میں رہنے والے اور مقامات پر رہنے والوں کی طرح دنیا بھر میں بکھر گئے ہیں۔روزی روٹی، ترقی، شادی اس کی عام وجوہات ہیں۔کویت میں اس کی نمائیندگی میمونہ چوگلے کر رہی ہیں۔’انڈین ایمبے سی رائٹرس فارم کویت‘کی صدر ہیں۔ جو۶۲ جنوری اور ۵۱ اگست کوتمام ہندوستانی زبانوں کے مشاعرے منعقد کرواتا ہے۔ وہ ہمیں ’کچھ ذکر کچھ فکر‘، ’فکرونظر‘،’متائے فکر‘ جیسی تنقیدوتحقیق کی کتابوں سے چونکاتی ہیں۔اردو کی نئی بستیاں جہاں جہاں آباد ہیں، وہاں وہاں تہذیب اورزبان کی شمعیں روشن ہیں۔ان بستیوں میں تہذیب ثقافت اور زبان کو مغربی آندھیوں سے بچانے کے لیے جلسے مشاعرے ہوتے رہتے ہیں۔ رپورٹ منظرِ عام پر لائی جاتی ہے، رسالے شایع ہوتے ہیں اور کتابیں بھی خوب چھپوائی جاتی ہے۔ وہاں کے لوگوں میں زبان اور خدمت کے جذبے کی تسکین کے لیے مالی مشکلیں درپیش نہیں ہوتیں۔امید کرتے ہیں کہ علم اور زبان کی یہ دھروہر اگلی نسلوں تک پہنچتی رہے گی۔
آج کل کالجوں اور یونیورسٹیوں میں لڑکیوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ انٹرنیٹ کی سہولتوں نے ترسیل کے مسائل حل کر دیے۔ اب دنیا بھر کی خواتین فیس بک اور واٹس ایپ پر گروپ بنا کر آپس میں بھی بحث کر سکتی ہیں۔ ان کے اپنے نفسیاتی اور biological مسائل بھی ہیں۔اب ان میں پہلے سے زیادہ اظہار کی جرات بھی ہے۔ روایت سے بغاوت کرکے اپنے وقار اور شناخت کو قائم کرنا جانتی ہیں۔نسائی شعور کو محض احتجاج یا بغاوت کا نام دینا غلط ہے۔ سماج اور ثقافت پر آج خواتین کی گہری نظر ہے، فکر کا زاویہ وسیع ہے۔ پہلے خواتین کم لکھتی تھیں۔ ان کے موضوعات بھی محدود تھے۔ اسی لیے ان کی نفسیات کی پرتیں مردوں نے کھولیں۔لیکن یہ سچ ہے کہ عورت کی نفسیات اس قدر محدود نہیں ہے۔نئے زمانے میں دنیا عالمی گاؤں بن چکی ہے۔اور اب اصلی عورت سامنے آ رہی ہے۔
بہت سی خواتین بہت سے مردوں کی طرح ادب کے میدان میں ڈٹی نہ رہ پائیں۔ T.S.Eliotنے کہا ہے کہ عام طور پینتیس سال کے بعد بھی لکھنا جاری رکھتا ہے، وہی ادیب ہوتا ہے۔شایدا سی لیے چمکتے ہوئے آغاز کے بعد بھی ان کے نام نظر نہیں آتے۔ویسے خواتین ہر میدان میں ہیں لیکن کبھی کبھی ٹاپ پوزیشن تک پہنچتے پہنچتے تِتر بِتر سی ہو جاتی ہیں۔ زندگی انھیں گھیرے رکھتی ہے۔گھیرتی ہی چلی جاتی ہے۔شاید نسل در نسل ان کی ذمہ داری کم ہونے کی جگہ بڑھتی جاتی ہے۔ نسل در نسل محبت اور تربیت کو پہنچانے کی پیغام بری انہیں ملی ہوئی ہوتی ہے۔ممکنات سے کیا بعید ہے لیکن کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ کوکن میں کوئی عصمت، کوئی قرت العین نشو نماپا رہی ہو

ڈاکٹر صادقہ نواب سحرؔ

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
سات جدید عجائبات عالم