بیٹھی تھی وہ سکوں سے بے دھڑک،
لباس تھا جو گھٹنوں تک کھنچاک۔
نظر آئینے کی، بدن کا جمال،
خود اپنی صورت پہ ناز و کمال۔
صفائی میں مگن، دل تھا شاد،
مگر اک لمحے کو ہوا بے مراد۔
لگائی انگلی جو بے سوچ سمجھی،
لذت کی لہر آئی دل میں دبی۔
پہلو ہلایا، جذبہ مچلا،
اک لطف کا لمحہ دل میں پگھلا۔
مگر فوراً ہوا دل کو خیال،
یہ شعلہ نہیں، ہے بس دھوکہ مثال۔
شاکرہؔ، ہائے! یہ کیسی خطا ہوئی،
یہ آگ وہ نہ تھی جو میرے دل میں لگی!
شاکرہ نندنی