- Advertisement -

کیا چہرے خدا نے دیے ان خوش پسروں کو

میر تقی میر کی ایک غزل

کیا چہرے خدا نے دیے ان خوش پسروں کو
دینا تھا تنک رحم بھی بیدادگروں کو

آنکھوں سے ہوئی خانہ خرابی دل اے کاش
کر لیتے تبھی بند ہم ان دونوں دروں کو

پرواز گلستاں کے تو شائستہ نہ نکلے
پروانہ نمط آگ ہم اب دیں گے پروں کو

سب طائر قدسی ہیں یہ جو زیر فلک ہیں
موندا ہے کہاں عشق نے ان جانوروں کو

زنہار ترے دل کی توجہ نہ ہو ایدھر
آگے ترے ہم کاڑھ رکھیں گر جگروں کو

پیراہن صدچاک سلاتے ہیں مرا لوگ
تہ سے نہیں مطلق خبر ان بے خبروں کو

جوں اشک جہاں جاتے رہیں گے تو گئے پھر
دیکھا کرو ٹک آن کے ہم دیدہ تروں کو

اس باغ کے ہر گل سے چپک جاتی ہیں آنکھیں
مشکل بنی ہے آن کے صاحب نظروں کو

آداب جنوں چاہیے ہم سے کوئی سیکھے
دیکھا ہے بہت یاروں نے آشفتہ سروں کو

اندیشہ کی جاگہ ہے بہت میرجی مرنا
درپیش عجب راہ ہے ہم نوسفروں کو

میر تقی میر

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
میر تقی میر کی ایک غزل