احساس ۔ حصول سکون کا زریعہ
زندگی میں ہر انسان سکون کا متلاشی ہے۔ہر انسان اپنے ذہن میں سکون کا ایک معیار بناتا ہے اور اس کے حصول کی تگ و دو میں دن رات مارا مارا پھرتا ہے۔اتنی محنت شاقہ کرتا ہے کہ خود فراموش ہو جاتا ہے۔اور یہ سعی لا متناہی آپ کو معاشرے کے ہر کونے میں بلا دِقّت کھوج نظر آتی ہے۔غور طلب بات یہ ہے کہ جس شے کے حصول کے لئے محنت کی جائے، قانون قدرت ہے کہ بالاخر اس شے کا حصول ممکن ہو جاتا ہے۔لیکن اس معاملے میں ہمیشہ ہمیں الٹے نتائج ہی ملتے ہیں۔آپ کسی بھی انسان سے پوچھ لیں،وہ کہے گا کہ میں سکون چاہتا ہوں اور اسی سکون کی تلاش میں صبح سے شام تک مصروف عمل رہتا ہوں۔پھر پوچھیں۔۔کیا ملا؟جواب یقینا نفی میں ہو گا بلکہ قرین از قیاس ہے کہ یہ جواب ملے کہ اس چکر میں وہ سکون بھی کھو چکا ہوں جو پہلے دستیاب تھا۔اسی موقع کی مناسبت سے ایک بزرگ کی حکمت بھری بات یاد آگئی۔ ایک شخص ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا حضور میں سکون چاہتا ہوں۔آپ نے فرمایا اس جملے کے شروع میں سے "میں ” اور آخر میں سے "چاہتا ہوں ” نکال دو۔”میں ” تکبر کی جبکہ "چاہتا ہوں "خواہش نفسانی کی علامت ہے۔پیچھے سکون باقی رہ جائے گا۔اتنی محنت کے باوجود اگر سکون میسر نہیں ہے تو یقینا اس کے درپردہ کوئی خاص سبب ہی ہو گا اور اگر اس وجہ کو تلاش کر کے اس خامی کو دور کر لیا جائے تو بلاشبہ اس محنت کا پھل حاصل کیا جا سکتا ہے۔فکر و تدبر،عقل و دانش اور ایجادات و اختراعات سے لبریز اس دور میں کون سا علم ہے جو انسان سے چھوٹ رہا ہے۔بات فقط اتنی ہے کہ بڑے بڑے عقدے کھولنے کے چکر میں ہم چھوٹی چھوٹی گرہیں کھولنا بھول گئے ہیں۔دنیا کا نظام ہے کہ ہر شے کو پانے کے لئے اس کے مقرر کردہ ٹھکانوں پر جانا پڑتا ہے جہاں وہ دستیاب ہوتی ہے۔ہر چیز ہر جگہ سے نہیں مل سکتی۔اسی طرح سکون کی ترسیل کا بھی ایک مقرر ٹھکانہ ہے اور ہم غلط پتے پرصحیح چیز کی تلاش میں غلط ہوئے پڑے ہیں۔کسی نے سمجھا سکون دولت میں ہے،وہ اسی کے پیچھے بھاگتا بھاگتادیوانہ ہو گیا مگر سکون کا نام و نشاں تک نہ ملا۔پھر اپنی عمر رواں گذار کر لگا دوسروں کو سمجھانے پر کون مانے۔کسی نے خیال کیا کہ سکون تو شہرت میں ملے گا۔اس نے اس کے پیچھے کمر کَس لی مگر وہ پہلے سے بھی کہیں ذیادہ بے سکون ہو گیا۔مشہور تو ہو گیا لیکن جینا دو بھر ہو گیا اور سادہ زندگی کو حسرت بنا کر ترسنے لگا۔غرض ہر شخص نے اپنے تئیں سکون کا مفہوم واضح کیا کسی نے یہ نہ سوچا کہ کیا منزل کی طرف سمت کا تعین درست بھی ہے کہ نہیں،بس اس کی تلاش میں بغیر سوچے سمجھے والہانہ بھاگنے لگا۔محض اس لیے کہ دوسروں کو بھی ایسے ہی اسی طرف بھاگتے ہوئے دیکھا تھا۔آئیے سکون کے اصل ٹھکانے کا کھوج لگاتے ہیں۔ہم میں سے ہر شخص کے پاس دوسروں کے حصے کا سکون ہے جو ہم کسی بھی وجہ سے ان تک نہیں پہنچاتے۔اور اس وجہ سے ہر شخص کا سکون رکا ہوا ہے۔اگر ہم میں سے ہر شخص اپنے سکون کے حصول کی اندھا دھند دوڑ چھوڑ کر دوسروں کے حصے کا سکھ انہیں دینے لگے تو ہم سب کے پاس ہمارا سکون خود بخود ہی پہنچ جائے گا۔آسان سا فارمولا ہے۔
احساس دنیا کی وہ قیمتی دولت ہے جس کی بدولت حضرت انسان باقی تمام مخلوقات پر افسر ہے۔یہی دولت اسے نیابت الہی کے تخت پر براجمان رکھتی ہے۔یہ نہ رہے تو اصل خوبصورتی انسان کی از خود جاتی رہتی ہے۔اور بسا اوقات وہ دوسری مخلوقات سے بھی کم تر سطح پر آ جاتا ہے۔حکمرانوں کے پاس عوام کے حصے کا سکون ہے وہ ان تک پہنچانے کا درست بندوبست کر لیں تو سکون خود ان کے دلوں پر آکر دستک دے گا۔انھیں باڈی گارڈ رکھنے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔نہایت آزمودہ تجربہ ہے کہ وہ سکون جو کسی حاجت مند کی حاجت روائی کر کے ملتا ہے وہ شاہی خزانوں کو تسخیر کرنے سے بھی نہیں ملتا۔آج معاشرے میں ہر لحاظ سے ترقی ہو رہی ہے۔ہر طرف علوم و فنون کی ندیاں بہہ رہی ہیں لیکن طغیانی میں احساس جیسا قیمتی شعار ڈوب کر ہمارا ناقابل تلافی نقصان بھی کر گیا ہے۔ہر شخص دوسرے کے درد سے غیر متعلقہ ہے۔دوسروں کے مصائب سے لا علم ہے۔اوروں کے کرب سے نا آشنا ہے۔اپنی منفعت و مصلحت کے بے مہار گھوڑوں کو دوڑاتا ہوا کتنے لوگوں کی آس،امید اور دعا کو قدموں تلے روند جاتا ہے،اس کا احساس تک نہیں ہوتا۔ہم ڈرامے میں تو کسی کا دکھ دیکھ کر رو پڑتے ہیں لیکن ساتھ والے کا دکھ ہمیں ڈرامہ لگتا ہے۔ہم اپنی سوچوں کے معیار کے زنداں میں باقی سب کو بھی قید کرنا چاہتے ہیں۔ اس روش کو بدلنا ہو گا۔ہمیں کچھ دیر اپنے سکون کے حصول کی دوڑ کو ترک کر کے دوسروں کو سکون پہنچانے کی نیت کرنا ہو گی۔حاجت روائی جو فقط اللہ پاک کی صفت ہے۔آپ اس امر کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے کریں کہ االلہ پاک ہمیں خود اپنے فضل سے اپنی اس صفت سے مزین کرتا ہے اور دوسروں کی حاجت روائی کرتے ہوئے ان کے دکھ،سکھ میں شریک ہونے کا حکم دیتا ہے۔اس کے حکم کے مطابق اس کی دی ہوئی استطاعت کو بروئے کار لاتے ہوئے جہاں تک ممکن ہو سکے،دوسروں کی چارہ جوئی کی جائے اور ان کے حصے کا سکھ ان تک پہنچنے میں رکاوٹ نہ بنا جائے۔سوچا جائے تو بنی نوع بشر کے لئے یہ کتنے اعزاز کا مقام ہے۔اور اگر اس کے الٹ چل پڑیں،جیسا کہ معاشرہ تہذیب نو کی چمکدار دلدل میں پھنس گیا ہوا ہے تو نتائج بھی ایسے ہی ہوں گے جیسے کہ اس وقت ہم بھگت رہے ہیں۔
خلوص،الفت،رواداری،بھائی چارہ،درگذر اور احساس کی دولت سے عاری ہم سب زندگی کے بوجھ تلے گھٹی گھٹی سانسیں لے رہے ہیں مگر کوئی اپنی انا اور خود غرضی کے خود ساختہ دائرے سے باہر نکل کر جینا ہی نہیں چاہ رہا۔اس سوچ نے پورے ماحول کو مایوس اور بد گمان بنا دیا ہے۔ہم کچھ لمحے اگر اپنی مصیبتوں سے فراغت پاتے بھی ہیں تو تفریح طبع کا ایک ہی زریعہ میسر آتا ہے کہ دوسروں کی عیب جوئی کر لی جائے یا کسی کی مصیبت پر خوشگوار انداز میں ماہرانہ تبصرہ فرما لیا جائے۔زندگی میں دوسروں کا احساس کرنے کے مواقع قدم قدم پر ملتے ہیں اور ہم ان کی قدر نہ کرتے ہوئے بے حسی کے قدموں تلے روندتے ہوئے آگے بڑھنے کو دانش مندی سمجھتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہمارا سکون بھی راستے میں کسی کے قدموں تلے روندا ہوا ملتا ہے۔سکون کسی بڑے مہنگے ہوٹل میں کھانا کھا کر نہیں ہوتا بلکہ الٹا اکثر اوقات یہ سوچ کر کہ کھانے کی اصلی قیمت سے زائد رقم دینی پڑی ہے تو اپنی بے وقوفی کا شدت سے احساس ہوتا ہے اور دل افسردہ ہو جاتا ہے۔یہی اگر راستے میں کسی بوڑھے کا بوجھ اٹھایا ہو یا کسی لاچار کی مدد کی ہو تو وہ راحت اور اطمینان محسوس ہو گا جو روح میں اترکر آپ کو اندر سے شادمان کر دے گا۔یہ سلسلہ جاری رہا تو نفس مطمئنہ والی منزل دور نہیں رہتی۔ اگرہم میں سے ہر شخص آپس میں آسانیاں بانٹنے والا بن جائے تو سارا معاشرہ امن کا گہوارہ بن سکتا ہے۔ہر طرف سکون اور خوشحالی آ سکتی ہے۔ہر چہرہ مسکرا سکتا ہے۔پھر دیکھیں دنیاکیسی بھلی اور حسین لگے گی۔ آج ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ ہمارے پاس جو دوسروں کا سکون بطور امانت موجود ہے وہ اس تک پہنچانا ہے،پھر دیکھیں آپ کو اپنا سکون آپ کی اپنی دہلیز پہ مل جائے گا۔
اویس خالد