کہیں فریاد بھی محتاجِ اثر ہوتی ہے
ایک اردو غزل از قمر جلالآبادی
کہیں فریاد بھی محتاجِ اثر ہوتی ہے
وہ تو وہ ان کے فرشتوں کو خبر ہوتی ہے
دم الٹتا ہے قضا پیشِ نظر ہوتی ہے
اس شبِ غم کی مزاروں میں سحر ہوتی ہے
دل سنبھلتا ہے نہ تسکینِ جگر ہوتی ہے
کس بلا کی خلشِ تیرِ نظر ہوتی ہے
گہہ نظر چرخ پہ گہہ جانبِ در ہوتی ہے
رات فرقت کی بری طرح بسر ہوتی ہے
گر نہیں خواب تو کیوں پھول کھلے دیکھتا ہوں
فصل یہ تو مجھے صیاد کے گھر ہوتی ہے
فصلِ گل آتے ہی جلتا ہے نشیمن میرا
چرخ کی کوندنے والی مرے گھر ہوتی ہے
تیری فرقت میں کوئی مونس و ہم دم نہ رہا
اک شبِ غم ہے جو تنہا مرے گھر ہوتی ہے
جان دے دیں گے کسی دامنِ صحرا میں قمرؔ
مر گیا کون کہاں کس کو خبر ہوتی ہے
۔۔۔۔
دل اگر ہوتا تو مل جاتا نشانِ آرزو
تم نے تو مسمار ہی کر ڈالا مکانِ آرزو
نا مکمل رہ گیا آخر بیانِ آرزو
کہتے کہتے سو گئے ہم داستانِ آرزو
دل پہ رکھ لو ہاتھ پھر سننا بیانِ آرزو
داستانِ آرزو ہے داستانِ آرزو!
حضرتِ موسیٰ یہاں لغزش نہ کر جانا کہیں
امتحانِ آرزو ہے امتحان آرزو
دل مرا دشمن سہی لیکن کہوں تو کیا کہوں
راز دانِ آرزو ہے راز دانِ آرزو
تم تو صرف اک دید کی حسرت پہ برہم ہو گئے
کم سے پوری تو سنتے داستانِ آرزو
دل نہ کیوں کر خاطر تیرِ تمنا کی کرے
میزبانِ آرزو ہے میزبانِ آرزو
اے قمرؔ کیوں کر مٹاؤں اپنے دل سے دل کا داغ
یہ نشانِ آرزو ہے یہ نشانِ آرزو
قمر جلال آبادی