ہمنوا، محرمِ جاں، اے مرے دل کوئی نہیں
چھوڑ قربت کے گماں اے مرے دل کوئی نہیں
اب مجھے دشتِ جدائی میں یہ معلوم ہوا
سائباں، سایہ ، اماں ، اے مرے دل کوئی نہیں
اس طرح رات کو کاٹا ہے تسلی سے پھر
آرہے ہیں وہ یہاں، اے مرے دل کوئی نہیں
کون آئے گا ملاقات کو مجھ سے اس وقت
یہ ہیں بس تیرے گماں اے مرے دل کوئی نہیں
اک اداسی ہے ستاتی مجھے ہر شب میں جلال
وہ نہ ہو تو یہ جہاں! اے مرے دل کوئی نہیں
محمد حذیفہ جلال