اردو غزلیاتداغ دہلویشعر و شاعری

گر ہو سلوک کرنا انسان کر کے بھولے

داغ دہلوی کی اردو غزل

گر ہو سلوک کرنا انسان کر کے بھولے
احسان کا مزا ہے احسان کر کے بھولے
نشتر سے کم نہیں ہے کچھ چھیڑ آرزو کی
عاشق مزاج کیوں کر ارمان کر کے بھولے
وعدہ کیا پھر اُس پر تم نے قسم بھی کھائی
کیا بھول ہے انساں پیمان کر کے بھولے
وعدے کی شب رہا ہے کیا انتظار مجھ کو
آنے کا وہ یہاں تک سامان کر کے بھولے
اپنے کئے پہ نازاں ہو آدمی نہ ہر گز
طاعت ہو یا اطاعت انسان کر کے بھولے
خود ہی مجھے بلایا پھر بات بھی نہ پوچھی
وہ انجمن میں اپنی مہمان کر کے بھولے
یہ بھول بھی ہماری ہے یادگار دیکھو
دل دے کے مفت اپنا نقصان کر کے بھولے
تم سے وفا جو کی ہے ہم سے خطا ہوئی ہے
ایسا قصور کیوں کر انسان کر کے بھولے
آخر تو آدمی تھے نسیان کیوں نہ ہوتا
میری شناخت شب کو دربان کر کے بھولے
اب یاد ہے اُسی کی فریاد ہے اُسی کی
سارے جہاں کو جس کا ہم دھیان کر کے بھولے
اب عشق کا صحیفہ یوں دل سے مٹ گیا ہے
جس طرح یاد کوئی قرآن کر کے بھولے
اے داغ اپنا احساں رکھے گا یاد قاتل
وہ اور میری مشکل آسان کر کے بھولے

داغ دہلوی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button