حیرت ہے کہ جو ظلم سے تقدیر بنائیں
کچھ لوگ انہیں صاحب توقیر بنائیں
اک خواب میں رکھیں کوئی گزرا ہوا لمحہ
اک خواب سے آئندہ کی تعبیر بنائیں
پتھر پہ کریں نقش ترے ہجر کا قصہ
پانی پہ ترے وصل کی تصویر بنائیں
شاید کسی زندان سے نکلے نہیں اب تک
یہ لوگ جو کاغذ پہ بھی زنجیر بنائیں
اک بار اگر باب سخن ہم پہ بھی کھل جائے
اس شخص کو بھی معتقد میرؔ بنائیں
قمر رضا شہزاد