اردو غزلیاتشعر و شاعریمیر تقی میر

غنچہ ہی وہ دہان ہے گویا

میر تقی میر کی ایک غزل

غنچہ ہی وہ دہان ہے گویا
ہونٹ پر رنگ پان ہے گویا

میرے مردے سے بھی وہ چونکے ہے
اب تلک مجھ میں جان ہے گویا

چاہیے جیتے گذرے اس کا نام
منھ میں جب تک زبان ہے گویا

سربسر کیں ہے لیک وہ پرکار
دیکھو تو مہربان ہے گویا

حیرت روے گل سے مرغ چمن
چپ ہے یوں بے زبان ہے گویا

مسجد ایسی بھری بھری کب ہے
میکدہ اک جہان ہے گویا

جائے ہے شور سے فلک کی طرف
نالۂ صبح بان ہے گویا

بسکہ ہیں اس غزل میں شعر بلند
یہ زمین آسمان ہے گویا

وہی شور مزاج شیب میں ہے
میر اب تک جوان ہے گویا

میر تقی میر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

Back to top button