آپ کا سلاماردو تحاریراردو کالمزعابد ضمیر ہاشمی

انسانی ہوس کا نتیجہ ہیں قدرتی آفات!

عابد ضمیر ہاشمی کا اردو کالم

انسانی ہوس کا نتیجہ ہیں قدرتی آفات!

بلوچستان میں 28 جولائی کو ہونے والی طوفانی بارشوں اور پھر اس کے بعد سیلاب کی وجہ سے بے گھر ہونے والے سینکڑوں خاندان مشکلات سے دوچارہو چکے ہیں‘کئی شہروں میں نکاسی آب نہ ہونے کی وجہ سے سڑکیں تالاب کا منظر پیش کر رہی‘ پانی گھروں سے اندر جا رہا‘ اس کے علاوہ آزاد کشمیر میں کئی مقامات پر لینڈ سلائیڈنگ ‘حادثات رونما ہو چکے ۔جب کہ مزید بارشیں متوقع ہیں۔ ملکی معیشت جہاں دیگر ناپید مسائل سے دو چار ہے وہاں سیلاب کی سالانہ بنیاد تباہ کاریاں بھی جاری ہیں گزشتہ سالوں کی طرح اِمسال بھی سیلاب ملک میں تباہی کا پیغام لے کر آیا ہے اس سال بھی سیلاب کی تباہ کاری سے زرعی فصلیں اور ملکی معیشت کو شدید دھچکا پہنچ سکتا ہے۔

قدرتی آفات کی کئی وجوہ ہیں‘ جن میں انسانی بداعمالیاں ‘ نظام قدرت جیسے متعدد وجوہات ہوتی ہیں۔ یہ آفات اچانک بھی نہیں آتیں‘ زمین انسان کو بہت پہلے سے آگاہی دیتی ہے۔ ہماری عدم ِ توجہ سے نا صرف مالی نقصان ‘بلکہ لاکھوں قیمتی جانوں کا ضیاع بھی ہوتا ہے۔ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کی زد پر ہے۔ ان موسمیاتی تبدیلیوں کا بدترین شکار ہونے والے دس ممالک کی فہرست میں پاکستان دو دہائیوں سے موجود ہے۔موسمیاتی تبدیلی قدرتی آفات کو بڑھا دیتی ہے اور سیلاب‘ کم دورانیے کی تیز بارشیں‘ برفانی اور سمندری طوفان اور خشک سالی پاکستان جیسے ترقی پزیر ملک کی معیشت پر بدترین اثرات مرتب کرتے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں اور قدرتی آفات کے نتیجے میں وہی لوگ زیادہ متاثر ہوتے ہیں ‘جو پہلے ہی غربت کے ہاتھوں بدحال ہوتے ہیں۔میپل کرافٹ کے مطابق؛ مسلسل جنگیں اور فسادات سے معاشرے کی جانب سے کسی قسم کی مزاحمت کا امکان کم سے کم ہوجاتا ہے ‘پھر ان ممالک میں کرپشن ‘ بد عنوانی کی وجہ سے قدرتی حادثات سے لڑنے کی صلاحیت کمزور ہوجاتی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اپنے محلِ وقوع کے مطابق‘ اس فہرست میں بالترتیب بھارت‘ بنگلا دیش‘ انڈونیشیا‘ فلپائن‘ امریکا‘ جاپان‘ نائیجیریا‘ برازیل اور پاکستان شامل ہیں ‘کیونکہ اپنے قدرتی ماحول اور محلِ وقوع کے لحاظ سے یہاں بار بار قدرتی آفات آتی رہتی ہیں‘ جبکہ پاکستان اور بھارت میں سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ کے خطرات بہت زیادہ ہیں۔ اس کے علاوہ جاپان‘ تائیوان اور ہانگ کانگ میں 85 فیصد آبادی کم ازکم ایک قسم کی قدرتی آفات کے سامنے ظاہری حالت میں موجود ہے۔
میپل کرافٹ کی یہ رپورٹ قدرتی آفات کے بین الاقوامی ڈیٹا سے بھی ثابت ہوتی ہے‘ جس میں دُنیا میں لینڈ سلائیڈ‘ سیلاب‘ طوفان‘ وبا اور دیگرآفات کا مکمل ڈیٹا بیس شامل ہے۔ اس سے عیاں ہوتا ہے کہ 1900ء سے لے کر اب تک قدرتی آفات کا گراف پہلے نمبر پر بھارت اور دوسرے نمبر پر پاکستان میں بلند ہوا ہے۔ صرف 1991ء سے 2015 ء تک کے 22 برس میں پاکستان میں قدرتی آفات کے 40 واقعات رونما ہوئے‘ جن میں 2010 ء کا ہولناک سیلاب اور 2005 ء کا زلزلہ شامل ہے۔ جولائی 2010ء میں شدید بارشوں کے نتیجے میں ہونے والی تباہی اعداد و شمار کے مطابق ‘قریباً 20 ملین‘ یعنی دو کروڑ لوگ متاثر ہوئے تھے۔ 307,374 مربع میل علاقہ زیرآب آیا تھا اور تقریباً دو ہزار کے قریب اموات ہوئی تھیں۔ اس کے علاوہ بارشوں کے نتیجے میں آنے والے سیلاب نے انفراسٹرکچر اور املاک کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا تھا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق‘ 2010ء کے اس سیلاب سے ملکی معیشت کو قریباً 4.3 ارب ڈالر کا نقصان ہوا تھا۔نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق‘ 29 ستمبر تک قریباً 2,523,681 لوگ متاثر ہوئے تھے۔ 360 افراد جاں بحق‘ 646 لوگ زخمی اور 56,644 گھر مکمل طور پر تباہ ہو چکے تھے۔ علاوہ ازیں4065 سے زائد دیہات بھی متاثر ہوئے‘ جبکہ 2,416,558 ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ‘ 8957 سے زائد مویشی سیلاب میں بہہ گئے تھے۔

پاکستان میں وقت کے ساتھ قدرتی آفات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ملکی تاریخ میں 14 سال قبل آنے والاشدید ترین زلزلہ کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا‘ جس کے نتیجے میں ملک بھر کے ہزاروں افراد جان کی بازی ہار بیٹھے‘ وادی کشمیر میں لاکھوں افراد شہید ہوئے۔ متعدد علاقوں میں لاکھوں گھر صفحہ ہستی سے مٹ گئے اور عام شہری منوں مٹی تلے دب گئے ۔زلزلے نے مالی و جانی نقصانات کے علاوہ زندہ بچ جانے والے متاثرین اور پوری قوم پر شدید نوعیت کے نفسیاتی اثرات بھی مرتب کیے۔ انسان زمانہ قدیم سے قدرتی آفات کا سامنا کرتا آرہا ہے اور آج کے دورِ جدید میں بھی انسان تمام تر ترقی کے باوجود قدرت کی بھیجی ہوئی آفات کے آگے بے بس نظر آتا ہے۔ زلزلہ سے ہم نے سبق نہیں سیکھا۔ آج بھی کئی عمارتیں رنگ روغن کر کے استعمال کی جارہی ہیں ‘جو کسی بھی وقت بڑے سانحہ کا سبب بن سکتی ہیں۔ایسی عمارتیں موت سے پہلے موت کا پیغام ہیں اور پھر فلاٹ لائن کے اوپر آباد کاری ہے ؛ حالانکہ اس حوالہ سے با ر ہا مرتبہ بتایا جا چکا کہ فلائٹ لائن اور اس کے گرد کسی بھی وقت ارتعاش پیدا ہو سکتا‘ جو خطرناک بھی ہو سکتا ہے ۔
درحقیقت قدرت کی طرف سے آزمائش ہوتی ہے کہ مصیبت کی اس گھڑی کاہم خود کیسے سامنا کرتے ہیں اور انسانی ہمدردیوں کی بنیاد پردوسرے متاثرین کی کیسے مدد کرتے ہیں‘ ہمیں قدرتی آفات کا سامنا کرنے کیلئے عالمی برادری کے اشتراک سے مختصر المدتی اور طویل المدتی دونوں طرح کی حکمت عملی وضع کرنے کی اشد ضرورت ہے‘اسی طرح قدرتی آفات کے نتیجے میں تباہ کاری کے بعد چندے اور امداد کی اپیل کی بجائے ہمیں پانی کے عظیم ذخیرے کو محفوظ کرکے قومی ترقی کیلئے استعمال کرنے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ ہمیں ان قدرتی آفات میں پوشیدہ قدرت کے اس پیغام کو سمجھنا چاہیے کہ زلزلے اور سیلاب سے مکمل چھٹکارہ حاصل کرنا کسی ملک کے بس کی بات نہیں‘ لیکن انسانی تاریخ میں سرخرو وہی ممالک قرار پاتے ہیں‘ جو حالات کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہیں۔
سیلاب ہر سال ملک میں آتا ہے ‘ اس پر اربوں روپے کے فنڈ صَرف کیے جاتے ہیں اور اس کے نقصانات کا باریک بینی سے تخمینہ لگایا جائے تو اربوں ڈالر کا نقصان ہوتا ہے- ریلیف آپریشن پر آنے والے اخراجات سے کم بجٹ میں ڈیم کی تعمیر ممکن ہے ‘ جب سیلاب آتا ہے تو ہنگامی بنیادوں پر امدادی کام بھی کیے جاتے ہیں اور آئندہ کیلئے سیلاب سے بچنے کی ممکنہ پالیسی بھی وضع کی جاتی ہے روایتی انداز اور روایتی عمل کے تحت چند دنوں کے بعد ہم سیلاب اور اُس کی تباہ کاریوں کو تاریخ کا حصہ سمجھ کر بھول جاتے ہیں لیکن یاد رکھیں جو قومیں اپنی تاریخ سے راہِ فرار اختیار کرتی ہیں وہ ہمیشہ ناکامی و رسوائی کا سامنا کرتی ہیں‘ تاریخ انہیں مٹا دیتی ہے ‘ بھلا دیتی ہے‘ ایسا ہی کچھ سیلاب کے آنے اور چلے جانے کے بعد ہمارے ملک و عوام کے ساتھ ہوتا ہے جہاں حکومتی مشینری سیلاب متأثرین کیلئے ریلیف آپریشن میں سر گرم عمل نظر آتی ہیں وہاں فلاحی ادارے، این جی اوزبھی اس موقع پر اپنی مدد آپ کے تحت جذبۂ ہمدردی و خیر سگالی پر عمل پیر ا ہوتے ہوئے سیلاب سے متأثرین کی بھر پور مدد کرتے نظر آتے ہیں – اپنی مدد آپ کے تحت کرنے والے ادارے ‘ جماعتیں محدود وسائل میں لامحدود کام منظم پلاننگ و حکمتِ عملی سے سر انجام دیتے ہیں ۔قدرتی آفات سے بچا تو نہیں جا سکتا‘ لیکن بروقت منصوبہ بندی اور حکمت عملی سے انسانی جانوں کا ضیاع کم کیا جا سکتا ہے۔

عابد ضمیر ہاشمی

عابد ضمیر ہاشمی

عابد ضمیر ہاشمی مصنف کتاب (مقصدِ حیات) ایڈیٹر صدائے اَدب کالمسٹ / رائٹر/ بلاگر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button