ڈاکٹر طارق قمر کی پیدائش یکم جولائی 1975 کو سنبھل کے ایک سادات گھرانے میں ہوئی ، آپ کے گھر میں شروع سے ہی ایک علمی ادبی و روحانی ماحول تھا ، آپ کے دادا پیر سید فضل احمد قادری ایک بڑے عالم دین اور صاحب نسبت بزرگ تھے دیار سنبھل میں وہ طالبان رشد وہدایت کا مرکز تھے جہاں ہروقت علماء اور عقیدت مندوں کا جمگھٹا لگا رہتا تھا ، گھر کی فضا قال اللہ قال الرسول کی صداؤں سے مشکبار اور علمی مجلسوں سے معمور تھی وہ بیک وقت عربی اردو اور فارسی تینوں زبانوں پر قدرت رکھتے تھے ، انھیں حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ تعلق تھا اس تعلق کے اظہار کے لیے انھوں نے “سیرت نور “ کے نام سے ایک کتاب لکھی اور تعلق مع اللہ کے اظہار کے لیے ایک مسجد تعمیر کروائی جو آج بھی سنبھل میں “پیر جیوں والی مسجد “ کے نام سے مشہور ومعروف ہے ۔
آپ کے والد سید عقیل احمد عقیل بھی اپنے والد کے نقش قدم پر تھے لیکن پیری مریدی کا سلسلہ ترک کردیا تھا ، وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے فارغ التحصیل تھے ، عربی اردو فارسی اور انگریزی چاروں زبانوں پر قدرت رکھتے تھے ، جرم سخن کے مرتکب تھے اس لیے عقیل تخلص رکھتے تھے ، ان کے قطعات کا پہلا مجموعہ “زخمِ احساس “ کے نام سے شائع ہوا ، اس کے بعد “ جرسِ گُل “ کے نام سے علماء سنبھل کے تذکرے پر دوسری کتاب شائع ہوئی ، انگریزی گرامر پر بھی ایک گراں قدر کتاب تصنیف فرمائی ، آپ کے انتقال کے بعد آپ کا بکھرا ہوا سارا کلام “ جرم سخن “ کے نام سے آپ کے بیٹے نے جمع کرکے شائع کیا ۔
ڈاکٹر طارق قمر کی والدہ ماجدہ بھی ایک پڑھی لکھی خاتون ہیں اور شعروادب کا اعلی ذوق رکھتی ہیں ، اس طرح کے علمی وادبی ماحول میں ڈاکٹر طارق قمر نے آنکھیں کھولیں ، ابتدائی تعلیم سنبھل ہی میں حاصل کی اس کے بعد اپنے تعلیمی کارواں کو آگے بڑھاتے ہوئے مرادآباد اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا رخ کیا ، تین سبجیکٹ اردو انگریزی اور ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی اور اردو مضمون میں گولڈ میڈلسٹ رہے ، رسمی تعلیم کے آخری پڑاؤ یعنی ڈاکٹریٹ کی ڈگری روہیل کھنڈ یونیورسٹی بریلی سے حاصل کی ، بعد ازاں بی بی سی لندن سے جرنلزم کا کورس کیا اور صحافت سے عملی زندگی کا آغاز کیا اسوقت آپ نیوز 18 لکھنؤ بیورو کے سینئر ایسوسی ایٹ ایڈیٹر ہیں ۔
ڈاکٹر طارق قمر کو شعری وادبی ذوق وراثت میں ملا ان کے والد کے دوست ڈاکٹر نسیم الظفر نے اسے مزید صیقل کیا ۔
ڈاکٹر طارق قمر کی شعری کائنات بہت وسیع ہے ، ان کی شاعری اپنے عہد کے حالات سے بہت مربوط ہے ، انداز بیان سادا اور شگفتہ ہے اور شعری رموز وعلائم سے مزین ہے ، ان کے فن پر کئی بڑے مستند نقادوں نے تبصرہ کیا ہے اختصار کے پیش نظر یہاں صرف چند ماہرین فن کے تبصرے پیش کیے جاتے ہیں ، پروفیسر شارب رودولوی لکھتے ہیں “ طارق قمر نئی نسل کے معتبر اور نمائندہ شاعر ہیں جن ذہنی اور جذباتی صدموں سے یہ نسل گزررہی ہے ان کا بڑا مؤثر اظہار ان کی غزلوں میں ہوا ہے ان کا ایک امتیاز یہ ہے کہ بعض دوسرے نئے شاعروں کی طرح وہ اپنے تجربات کی شدت کو اتنا بے لگام نہیں ہونے دیتے کہ وہ سلیقہ اظہار کی حدوں کو پھلانگ جائے ، ان کا موضوع آج کی زندگی ہے لیکن ان کے پیرایہ بیان میں ماضی کے استاذوں جیسا رکھ رکھاؤ ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنی تہذیبی وادبی روایت سے نہ صرف باخبر ہیں بلکہ اس کا احترام بھی انھیں ملحوظ ہے “
مرحوم بیکل اتساہی رقم طراز ہیں “ طارق قمر کی شاعری میں اس دور کا لوچ بھی ہے اور لچک بھی اور یہ فولاد کی طرح لوچ اور لچک ہے ان کی شاعری میں جذبات کی جامعیت اور سادگئ بیان کا اختصار ان کی غزلوں کا خاصہ ہے ، بالخصوص ردیف وقوافی کا نیاپن اور اس پر ان کا زور بیان عصری شاعری میں انفرادیت کا درجہ رکھتا ہے “
پروفیسر گوپی چند نارنگ لکھتے ہیں “ ادبی روایت طارق کے خون کا حصہ ہے اور زبان وبیان پر ان کی گرفت مضبوط ہے ، طارق کے یہاں ایک چنگاری ہے جو مخالف ہواؤں کی زد میں آتے ہی سلگ اٹھتی ہے “
ڈاکٹر طارق قمر غزلوں کے علاوہ نظموں کے بھی شاعر ہیں ، حالات حاضرہ کے حوالے سے انھوں نے کئی بہترین نظمیں تخلیق کی ہیں ، ایک صحافی کتنی بھی کوشش کرلے لیکن وہ اپنی ذات کو اپنے ماحول سے الگ نہیں کرسکتا یہی وجہ ہے کہ عصری حسیت ان کی شاعری کی جزو لا ینفک بن گئی ہے اور وہ شاعری ہی کیا جو اپنے دور کا ترجمان نہ ہو ۔
ڈاکٹر طارق قمر ایک شاعر ادیب مترجم محقق ہونے کے ساتھ ساتھ موجودہ عہد کے مشاعروں کا ایک مقبول عام چہرہ بھی ہیں ، مشاعروں کے اس دور میں جہاں کلاسیکی مشاعرے اپنا دم توڑ چکے ہیں ، مشاعرے ہلڑ بازی اور تماش بینوں کا اڈہ بن چکے ہیں ، شعراء مشاعرہ پڑھنے اور داد سخن حاصل کرنے کے لیے کسی بھی سطح تک گرنے کے لیے تیار رہتے ہیں لیکن ڈاکٹر طارق قمر اس بھیڑ سے بالکل الگ دکھائی دیتے ہیں ، وہ نہ اپنا وقار داغدار ہونے دیتے ہیں اور نہ ہی اپنی خاندانی شرافت پر کوئی آنچ آنے دیتے ہیں وہ اس دور میں بھی بامقصد اور سنجیدہ کلام سے دلوں کو گرماتے اور قومی غیرت کو للکارتے ہیں ، وہ اندرون ملک کے علاوہ بیرونی ممالک میں بھی شاندار نمائندگی کرچکے ہیں جن میں لندن ، مانچسٹر ، قطر ، ابوظبی ، شارجہ ، مسقط ، کویت ، بحرین ، دمام ، ریاض ، جدہ ، پاکستان ، بنگلہ دیش ، ایران وعراق وغیرہ شامل ہیں ۔
ڈاکٹر طارق قمر کئی علمی وادبی وثقافتی تنظیموں سے وابستہ ہیں جنھیں یہاں قلم انداز کیا جاتا ہے ، ان کی خدمات کے اعتراف میں اب تک انھیں بے شمار انعامات و اعزازات سے نوازا جا چکا ہے ان کی فہرست بہت طویل ہے تاہم بطور سند یہاں صرف چند کا تذکرہ کیا جاتا ہے ہندی اردو ساہتیہ اکادمی ایوارڈ ، بی بی سی ورلڈ سروس ایوارڈ ، راجیو گاندھی سمان ، وقار ادب ایوارڈ ( پنجاب اردو اکیڈمی ) وغیرہ
ڈاکٹر طارق قمر کی تصنیفات درج ذیل ہیں
1. شجر سے لپٹی ہوئی بیل ( پہلا شعری مجموعہ )
2. پتوں کا شور ( شعری مجموعہ )
3. نئی غزل میں امیجری ( ڈاکٹریٹ کا مقالہ )
4. جرم سخن ( ترتیب وپیشکش کلام حضرت عقیل سنبھلی )
ڈاکٹر طارق قمر نے بہت کم عمری ہی میں ادب میں اس مقام کو پالیا جہاں تک پہونچنے میں داڑھیاں سفید ہوجاتی ہیں اور پاؤں لرزنے لگتے ہیں ، اسے خدا کا خاص فضل وکرم ہی کہا جاسکتا ہے کہ ان کی شہرت وہاں وہاں ہے جہاں جہاں اردو موجود ہے وہ ابھی جوان ہیں اور جذبہ سے بھرپور ہیں ، ان کے اندر قوم کو بہت کچھ دینے کی صلاحیت موجود ہے اس لیے ان سے بجا طور پر بہت سارے توقعات کو وابستہ کیا جاسکتا ہے ۔
بشکریہ
اسکالر پبلشنگ ہاؤس