پاکستان کے لیے دو خوش خبریاں
خوشبوئے قلم محمد صدیق پرہاروی
ویسے توپاکستان میں اچھی خبریں بہت کم ہی سننے اورپڑھنے کوملتی ہیں۔چند ایک خوش خبریاں یہ ہیں۔ معیشت بہترہورہی ہیں۔ مہنگائی کی شرح کم ہوگئی ہے۔ خوش خبریاں وزیراعلیٰ پنجاب بھی سنارہی ہیں۔ البتہ اس تحریر میں ہم حکومتی خوش خبریوں پرنہیں بلکہ دوایسی خوش خبریوں کے بارے میں لکھنے جارہے ہیں۔جن خبروں کے اثرات مستقبل میں سامنے آئیں گے۔ اب پہلے یہ دونوں خوش خبریاں پڑھ لیں اس کے بعدان کے اثرات ونتائج پربات کریں گے۔
عالمی مارکیٹ میں باسمتی چاول کی ملکیت کے حوالے سے طویل عرصے سے جاری سے جنگ میں پاکستان نے بھارت چاروں شانے چت کردیا ہے اور پاکستان کی پیداوار کے طور پر تسلیم کرلیا گیا ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کی مارکیٹ میں باسمتی چاول کو پاکستان کی پیداوار کے طور شناخت مل گئی ہے، جس کے لیے پاکستان طویل عرصے سے جدوجہد کر رہا تھا تاکہ اپنے دعوے کو ثابت کیا جاسکے۔رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ یورپی مارکیٹ سے بھی اسی طرح کے فیصلے کا امکان ہے، جس سے عالمی مارکیٹ میں پاکستان کی پوزیشن مزید مضبوط ہوگی۔بھارت کے دعوؤں کو اس وقت دھچکا لگا جب تاجر اور مورخین نے شواہد کے ساتھ ثابت کیا کہ باسمتی چاول پاکستان کے ضلع حافظ آباد کی پیداوار ہے اور اسی بنیاد پر آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ نے بھارت کے دعوے کو یکسر مسترد کردیا۔پاکستان کے باسمتی چاول کی دنیا بھر میں دھوم ہے، جس کا غیرمعمولی معیار اور مناسب قیمت اس سے عالمی مارکیٹ میں مزید برتری دلاتی ہے، جس کے نتیجے میں پاکستان کی باسمتی چاول کی برآمد 4 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے اور چاول کی 27 ارب ڈالر کی عالمی مارکیٹ میں پاکستان بڑا حصہ دار بن جاتا ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بھارت نے باسمتی چاول کی تجارت میں پاکستان کو مات دینے کے لیے عالمی مارکیٹ میں قبضے کی بڑی کوششیں کیں تاہم ان کی تمام کوششیں ناکام ثابت ہوئیں اور پاکستان کے دعووں کو دنیا میں پذیرائی ملی۔
موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث زراعت کا شعبہ شدید متاثر ہو رہا ہے اور خشک سالی کی وجہ سے اس سال پنجاب میں گندم کی پیداوار متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ تاہم، زرعی ماہرین نے ایک ایسا فارمولا تیار کیا ہے جو پوری دنیا کو حیران کر رہا ہے۔ اس کسان دوست فارمولے کا تجربہ بھائی پھیرو کے علاقے میں کیا گیا جہاں اس کے حیران کن نتائج سامنے آئے ہیں۔زرعی ماہر سید بابر حسین بخاری نے ایک آرگینک محلول تیار کیا ہے جو کلرزدہ اور بنجر زمین کو قابلِ کاشت بنانے کے ساتھ ساتھ زمین کی زرخیزی میں بھی کئی گنا اضافہ کرتا ہے۔ پھول نگر کے نواحی علاقے میں مقامی کاشتکار رانا محمد افتخار نے اپنی چند ایکڑ زمین پر اس فارمولے کا استعمال کیا جس کے غیرمعمولی نتائج سامنے آئے۔رانا محمد افتخار نے ایک نیوزچینل سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی زمین میں کالا شور(کلر) تھا جس کی وجہ سے کوئی بھی فصل یا تو بہت کم ہوتی تھی یا ابتدائی دنوں میں ہی سوکھ جاتی تھی۔ تاہم، اس فارمولے کے استعمال کے بعد ان کی زمین کی زرخیزی میں واضح بہتری آئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یوریا کھاد کے بغیر بھی فصل کی نشوونما شاندار رہی اور گندم کی مضبوطی اتنی زیادہ ہے کہ اس میں گھوڑے دوڑانے پر بھی کھڑی رہ سکتی ہے۔
پنجاب کے ایک معروف کاشتکار اور زرعی ماہر بریگیڈیئر (ر) سید جعفر عباس نے بھی اس فارمولے کے نتائج کی تصدیق کی۔ ان کے مطابق گندم کے تنے کی جڑیں انتہائی مضبوط ہو چکی ہیں اور تنا اس قدر موٹا ہے کہ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ گندم کی نہیں بلکہ بانس کی فصل ہو۔ انہوں نے اس ٹیکنالوجی کو مستقبل میں فوڈ سیکیورٹی کے لیے نہایت اہم قرار دیا اور حکومت کو تجویز دی کہ وہ اس فارمولے کو زراعت کے فروغ کے لیے اپنے منصوبوں میں شامل کرے۔
سید بابر حسین بخاری نے بتایا کہ انہوں نے اپنی زندگی کے 25 سال اس تحقیق کے لیے وقف کیے تاکہکاشتکاروں کو بہتر اور مؤثر حل فراہم کیے جا سکیں۔ ان کے مطابق یہ فارمولا 100 فیصد قدرتی اجزاء پر مبنی ہے اور اس میں کسی قسم کا کیمیکل شامل نہیں کیا گیا۔ یہ کسان دوست فارمولہ ماحول دوست بھی ہے اور قدرتی کیڑوں کو محفوظ رکھتا ہے جو زراعت کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔انہوں نے مزید وضاحت کی کہ یہ فارمولا زمین میں تین فٹ تک پانی کو ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور پودے کو ضرورت کے مطابق پانی فراہم کرتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ زمین کے بند مساموں کو کھول کر جڑوں کو گہرائی تک جانے میں مدد دیتا ہے جس کے نتیجے میں پودے قدرتی غذائی اجزاء جذب کر پاتے ہیں اور زیادہ صحت مند ہوتے ہیں۔ اس محلول کا استعمال نہ صرف فصل کی پیداوار بڑھانے میں مدد دیتا ہے بلکہ بیماریوں کے خلاف بھی قوت مدافعت پیدا کرتا ہے۔محلول کے استعمال کے طریقہ کار پر روشنی ڈالتے ہوئے بابر حسین بخاری نے بتایا کہ ایک ایکڑ زمین کے لیے پانچ لیٹر محلول پانی میں ملا کر ڈرپ ایریگیشن کے ذریعے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ بارانی علاقوں میں جہاں پانی کی کمی ہوتی ہے، وہاں اس محلول کو اسپرے کے ذریعے استعمال کیا جا سکتا ہے تاکہ زمین میں نمی برقرار رہے اور فصل خشک سالی کے دوران بھی بہتر انداز میں نشوونما پا سکے۔
زرعی سائنسدان غلام عباس نے اس فارمولے کے تحت اگنے والی گندم کا تجزیہ کیا اور بتایا کہ اس فصل میں روایتی گندم کے مقابلے میں نمایاں فرق دیکھنے میں آیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مٹی میں بیماریوں کی موجودگی ایک عام مسئلہ ہوتا ہے، اور تکنیکی طور پر اسے ”ہائی پی ایچ پرابلم” کہا جاتا ہے۔ لیکن اس فارمولے کے استعمال سے مٹی کی بیماریوں کا خاتمہ ہوا اور اس کی زرخیزی میں بہتری آئی، جس کا مثبت اثر فصل پر پڑا۔انہوں نے مزید کہا کہ جہاں یہ فارمولا استعمال نہیں کیا گیا وہاں گندم کی نشوونما معمول کے مطابق رہی، جبکہ جہاں فارمولا اپلائی کیا گیا وہاں پیداوار تین سے چار گنا زیادہ ہونے کی توقع ہے۔ ماہرین نے کہایہ فارمولہ خشک سالی کے مسائل کے حل کے لیے ایک اہم پیشرفت ہے اور اگر حکومت اسے اپنی زرعی پالیسی میں شامل کرے تو اس سے زراعت میں انقلابی تبدیلیاں آ سکتی ہیں۔
قارئین آپ نے دونوں خوش خبریاں پڑھ لی ہیں۔پہلی خوش خبری یہ ہے کہ عالمی مارکیٹ میں تسلیم کرلیاگیا ہے کہ باسمتی چاول بھارت کی نہیں پاکستان کی پیداوار ہے۔ یہ پاکستان کے لیے بہت بڑی خوش خبری ہے۔ بھارت پاکستان کے باسمتی چاول اوردیگرمصنوعات کوعالمی مارکیٹ میں اپنی مصنوعات کے طورپرفروخت کرتاآرہاہے۔ اب جس طرح عالمی مارکیٹ میں تسلیم کرلیاگیا ہے کہ باسمتی چاول پاکستان کی پیداوار ہے۔ اسی طرح پاکستانی پیداواریں اورمصنوعات جوبھارت اپنی پیداوار اورمصنوعات کے طورپرعالمی مارکیٹ میں فروخت کررہاہے۔ جلدہی ان کے بارے میں بھی عالمی مارکیٹ میں تسلیم کرلیاجائے گا کہ وہ پیداواریں اورمصنوعات پاکستان کی ہیں۔ عالمی مارکیٹ میں باسمتی چاول کے پاکستان کی پیداوارتسلیم ہوجانے سے عالمی مارکیٹ میں پاکستان کی معیشت پربہترین اثرات مرتب ہوں گے۔جب یہ چاول پاکستان فروخت کرے گا تو قیمتی زرمبادلہ ملک میں آئے گا۔ عالمی تجارت میں پاکستان کی تجارت کاتناسب بڑھ جائے گا۔ دوسرے لفظوں میں پاکستان کی برآمدات میں اضافہ ہوگا۔اس سے تجارتی خسارے میں کمی آئے گی۔
دوسری خبری زراعت سے متعلق ہے۔ پاکستان بنیادی طورپرزرعی ملک ہے۔ اس کی معیشت کازیادہ ترانحصارزراعت پر ہے۔اس کے ساتھ ساتھ صنعتی معیشت بھی زراعت سے وابستہ ہے۔ پاکستان میں ایسی زمینیں بھی موجود ہیں کلرزدہ اوربنجرہونے کی وجہ سے کاشت کے قابل نہیں ہیں۔ اس سلسلہ میں خوش خبری یہ ہے کہ زرعی ماہربابرحسین بخاری نے ایسامحلول تیارکیا ہے جس سے کلرزدہ اوربنجرزمینوں کوکاشت کے قابل بنایاجاسکے گا۔وہ اس کاکامیاب تجربہ بھی کرچکے ہیں۔ اس سے پاکستان میں کاشت کے قابل زمین میں اضافہ ہوگا۔ اس سے پاکستان کی زرعی پیداوار میں اضافہ ہوگا۔ اس سے نہ صرف ملکی ضروریات پوری ہوں گی اس کے ساتھ ساتھ برآمدبھی کیاجاسکے گا۔امیدکی جانی چاہیے کہ اس طرح کی خوش خبریوں کاسلسلہ جاری رہے گا۔
محمدصدیق پرہاروی