دو چار دن ہے رونقِ بازار میرے دوست
افتخار شاہد کی ایک غزل
دو چار دن ہے رونقِ بازار میرے دوست
پھر ڈھونڈتے پھرو گے خریدار میرے دوست
کافی نہیں ہے کیا مرے ہونے کی یہ دلیل
لوگوں نے کر دیا مرا انکار میرے دوست
خدشہ ہے میرے گھر کو بلائیں نہ گھیر لیں
گرنے لگی ہے باہری دیوار میرے دوست
لوگوں کا اک ہجوم ہے پتھر لئے ہوئے
شاخیں جو ہو گئی ہیں ثمر بار میرے دوست
جاتے ہوئے جو کچھ بھی بتا کر نہیں گیا
وہ شخص بھی تھا کیسا وضع دار میرے دوست
مانا مری تباہی میں میرا ہی ہاتھ ہے
یعنی میں خود ہوں میرا گنہگار میرے دوست
پہلا قدم ہی میں نے دھرا دشتِ قیس میں
بولا کہیں سے کوئی! خبردار میرے دوست
بندِ قبا کو چھیڑ کر گزری ہوائے شام
تھمنے لگی ہے وقت کی رفتار میرے دوست
میں نے تمہارے سامنے سر کو جھکا دیا
تم سے اگر نہ اٹھ سکی تلوار میرے دوست
ایسے نہ سر اٹھا کے بلندی کو دیکھئے
گرنے لگی ہے آپ کی دستار میرے دوست
ویسے تری نظر کو مناظر تو کم نہیں
ہم بھی ہیں اک نظر کے طلبگار میرے دوست
شاہد تمہارے عکس نے ایسا خجل کیا
ہے آئنہ بھی آج شرر بار میرے دوست
افتخار شاہد