شہزاد نیرّ اور ”گرہ کھُلنے تک“
شہزاد نیّر کی شخصیت اور شاعری دونوں سے میری کوئی دوستی نہیں ہے۔ کئی برسوں سے فقط ایک واقفی ہے۔ میں مختلف رسائل میں اس کی متفرق شعری تخلیقات تو پڑھتا چلا آ رہا ہوں لیکن اس کا کوئی شعری مجموعہ زیر نظر مجموعے سے پہلے میں نہیں پڑھ سکا۔ آ نے والے دنوں میں شہزاد نیّر کی شخصیت سے میری واقفی، دوستی کے رشتے تک پہنچے نہ پہنچے، ”گرہ کھلنے تک“ کی نظمیں پڑھنے کے بعد مجھے اس کی شاعری سے دوستی کا رشتہ استوار ہوتا ہوا ضرور محسوس ہوتا ہے۔
شہزاد نیّر کے موضوعات شخصی محبت سے لے کر طبقاتی، قومی اور عالمی، مختلف سطحوں کی سماجی آفاقیت تک پھیلے ہوئے ہیں اور وہ مکانی اور زمانی دونوں جہات میں دورتک دیکھنے اور جاننے کے لئے مُتجسّس نظر آتا ہے اور اس کا یہ تجسّس محض دیکھنے اور جاننے کے لئے نہیں ہے بلکہ اپنے انفرادی سماجی وجود اور نوع انسان کے اجتماعی سماجی وجود کے بلند تر اثبات کی خاطر ہے، اس اثبات کے امکانات سماجی عمل اور سماجی رشتوں میں گندھے ہوئے ہیں۔ شہزاد نیّر سماجی عمل اور سماجی رشتوں کی اہمیت سے غافل نہیں ہے۔ ان کی اہمیت سے اُسے ابھی تک جتنی آگاہی میسّر ہے وہ آگاہی اس کے جدید فنی وجمالیاتی طرز فکر و احساس سے مل کر اس کی بیشتر نظموں میں رعنائی اور توانائی لائی ہے۔ ان بیشتر نظموں میں اس کی طویل نظم ”نوحہ گر“شامل نہیں ہے
شہزاد نیّرؔ کی شاعری میں تیزی سے تبدیل ہوتی ہوئی سماجی زندگی کی ترجمانی اطلاعاتی سطح کی نہیں ہے بلکہ اس کی نظمیں پڑھ کر پتا چلتا ہے کہ اس نے یہ جدید سماجی زندگی اپنے پورے خارجی اور داخلی وجود میں بسر کی ہے۔ اور اس سطح کی شراکت کے باعث فطرت کے مظاہر سے اس کا رشتہ بھی ایک نئے طرز فکرو احساس کے ساتھ اظہار پاتا ہے۔
مارکس نے کمیونسٹ مینی فیسٹو (1848)میں ایک پیرے میں سرمایہ داری کی بابت لکھا تھا کہ وہ کس طرح ہر ٹھوس شے کوہوا میں تحلیل کر دیتی ہے۔ 1848 سے لے کر آج تک سارے جدیدیت پسند اور اب ما بعدجدیدیت پسند بھی سرمایہ دارانہ جدید کاری کے اسی پہلو پر جمالیاتی ردِ عمل کا اظہار کرتے چلے آرہے ہیں۔ لیکن ترقی پسند اپنے آپ کو صرف یہیں تک محدود نہیں رکھتے وہ سرمایہ دارانہ جدید کاری کے مثبت امکانات کو بھی دیکھتے اور ان کو حقیقت پذیر کرنے کی جدوجہد کرتے ہیں جو نوع انسانی کی نجات کے اشارہ نما ہیں اور ان منفی اور مثبت دونوں پہلووں کی کسی حد تک ترجمانی شہزاد نیّر کی نظم ”کوئی پہاڑ ہٹ گیا“ میں ہوئی ہے۔ اس نظم کا پہلاحصہ یہ ہے کہ:۔
عجیب ٹوٹ پھوٹ تھی کہ کائنات ہل گئی
زمین وہ نہیں رہی
فلک سروں سے ہٹ گئے
قدیم دکھ جدا ہوئے
ذرا سا ایک زاویہ بدل گیا
کہانیاں بدل گئیں
کہانیوں کے ساتھ خوش گمانیاں بدل گئیں
جمے جمائے ضابطے مدار سے نکل گئے
زمین و آفتاب اپنے راستے بدل گئے
اور اس نظم کا آخری بند یہ ہے:۔
عجیب سی وہ آگ تھی
گُنہ ثواب جل گئے
سزائیں یا جزائیں جو بھی تھیں وہ سب جھلس گئیں
تپش سے خیر و شر کا سارا زائچہ پگھل گیا
جدید خدوخال میں ہر ایک نقش ڈھل گیا
کمال تھا وہ رنگ جو ہر ایک شے پہ پھر گیا
نیا تھا اک جہان میرے سامنے پڑا ہوا
عجیب سی وہ آگ تھی
وہ آگ تھی کہ آگہی
کہیں پہ جو رُکی نہیں
جو آگے آگے چل پڑی تو راستہ نکل پڑا
خدا کو پیچھے چھوڑ کر
میں خود کو لے کے چل پڑا
شہزاد نیّر کی نظموں کے مجموعے پر یہ سطریں کوئی مضمون نہیں ہیں بلکہ کسی فرصت میں مضمون لکھنے کے لئے ایک بنیاد بنانے کی کوشش ہیں۔
یوسف حسن
راولپنڈی
13دسمبر 2013