غزل الغزلات: عہد نامہ قدیم کا محبت بھرا نغمہ
سید محمد زاہد کا ایک اردو کالم
غزل الغزلات: عہد نامہ قدیم کا محبت بھرا نغمہ
غزل الغزلات (song of Solomon) عہد نامہ قدیم میں شامل ایک کتاب ہے۔ یہ باقی تمام مذہبی کتابوں سے اس لحاظ سے مختلف ہے کہ اس میں کسی ایک جگہ پر بھی خدا کا ذکر نہیں ملتا اور نہ ہی اس میں کہیں مذہبی قوانین و فرامین یا رہبانیت اور علم و حکمت کی طرف کوئی اشارہ کیا گیا ہے۔ یہودیوں کے ماضی کا بیان، مستقبل کے بارے میں پیشن گوئیاں یا زمانہ حال کی بہتری کے لیے دعوت و تبلیغ کا ذکر بھی کہیں نہیں ملتا۔ اس میں جنسی محبت، وصل و ہجر اور دعوت وصال کا ذکر ہے۔ قربت کی لذت شیریں کا بیان، محبوب و محب کی تڑپ، طاقتور رقیب کا ڈر اور خفتہ بختی کا خوف بھی ساتھ ساتھ موجود ہے۔ گیت کے آغاز میں ہی یہ تینوں کردار نظر آتے ہیں۔
”اے عطر ریختہ، اے کنواریوں کے محبوب، تیرے جسم کے عطر کی خوشبو پر لطف ہے۔ جلدی کر، مجھے اپنے ساتھ لے جا۔ اس سے پہلے کہ بادشاہ مجھے دیکھ لے اور اپنے حرم میں شامل کر لے۔ میں صرف تیرے ساتھ ہی شادمان اور مسرور رہ سکتی ہوں۔“
یہ گیت دسویں صدی قبل مسیح کا ہے۔ اس وقت یروشلم میں سلیمان بادشاہ کی حکومت تھی۔ ہیروئن شولمیت وہاں کی لڑکیوں سے مخاطب ہو کر کہتی ہے۔
”اے یروشلم کی بیٹیو، سنو! اگر چہ میں سانولی سلونی ہوں لیکن بہت خوبصورت ہوں بالکل قیدار کے خیموں اور سلیمان کے خیموں کے پردوں کی طرح دل آویز۔ مجھے حیرانی سے مت دیکھو۔ مت سوچو کہ میں سیاہ فام کیسی باتیں کر رہی ہوں۔ دیکھو! میں دھوپ کی جلی ہوں۔ میری ماں کے جنے مجھ سے ناخوش تھے۔ میں دہکتے سورج کے نیچے ان کے تاکستان کی نگہبانی کرتی رہی اور اپنے تاکستان کی حفاظت نہ کر سکی۔“
وہ ایک چرواہے کے عشق میں پاگل ہے۔
”میرے ماہی! مجھے بتا تو اپنا گلہ کہاں چراتا ہے؟ میں دوسرے گلہ بانوں میں تجھے ڈھونڈتے پھرتی ہوں۔ تو مجھے کہاں ملے گا؟ بتا دے کہ دوپہر کو کہاں قیلولہ کرتا ہے؟ میں کہاں ڈھونڈوں؟“
یروشلم کی عورتیں اس کا پاگل پن دیکھتے ہوئے پکار اٹھتی ہیں۔
”اے دوشیزہ، اے عورتوں میں سب سے خوبصورت، تو کیوں اسے پکار رہی ہے؟ اس کو ڈھونڈنے میں کیوں پاگل ہو رہی ہے؟ تو بھیڑوں کی رہگزر پر چلتی جا، اپنے بزغالوں کو لے کر چرواہوں کے خیموں کے پاس چرا ( وہ ادھر ہی کہیں مل جائے گا۔ )“
وہ اتنی دیوانی ہے کہ اسے ہر طرف وہ ہی وہ دکھائی دیتا ہے، اس کی آواز ہی گونجتی سنائی دیتی ہے۔
”آ میری پیاری! تو فرعون کے رتھ کی گھوڑی جیسی حسین ہے۔ کانوں میں جھولتی بالیاں تیرے رخساروں کو مزید خوشنما بنا رہی ہے۔ گردن موتیوں کے ہاروں سے دمک رہی ہے۔ میں تیرے لیے سونے کی بالیاں بناؤں گا اور ان میں چاندی کے پھول جڑوں گا۔“
اس گیت میں اس ارض پاک کے مختلف علاقوں میں اگنے والی فصلوں اور پھولوں کا ذکر ہے۔
”آ میرے پیارے! جب تک میرا بادشاہ دسترخوان پر خاصہ تناول فرمائے گا میں خوشبو لٹاتی رہوں گی۔ میرا محبوب میرے لئے مر کی وہ ڈبیا ہے جو ساری رات میری چھاتیوں کے درمیان پڑی خوشبو بکھیرتی رہتی ہے۔ ہاں! میرا محبوب نخلستان ’عین جدی‘ کے انگوروں کے باغات میں اگنے والی مہندی کے پھولوں کا گچھا ہے۔“
”میری محبوبہ، اے میری پیاری، تو کتنی خوبصورت ہے! تیری آنکھیں دو کبوتر ہیں۔“
”میں وادی شیرون کا گلاب ہوں، میں وادیوں میں کھلنے والی سوسن ہوں۔“
”جیسے سوسن کا پھول جھاڑیوں میں، ویسی میری محبوبہ کنواریوں میں۔“
”میرا محبوب نوجوانوں میں ایسا ہے جیسے خوبانی کا پودا، بن کے نرپھل درختوں میں۔ میں اس کے سائے میں شادمان رہتی ہوں۔ اس کا پھل مزیدار اور میٹھا ہے۔ اس کی محبت کا جھنڈا میرے اوپر ہے۔ اس کا بایاں ہاتھ میرے سر کے نیچے اور داہنا ہاتھ مجھے گلے سے لگاتا ہے۔ میں عشق کی مریض ہوں۔ کشمش سے میرا علاج کرو۔ خوبانیوں سے مجھے تازہ دم کرو۔“
اس میں پہاڑیوں، ٹیلوں، جانوروں اور پرندوں کی تشبیہات بھی موجود ہیں۔
”اے یروشلم کی بیٹیو، جاؤ بھاگ جاؤ، میں تمہیں غزالوں اور ہرنیوں کی قسم دیتی ہوں، مجھے باتوں میں الجھا کر میرا پیار مت جگاؤ۔ میرے خوابوں کا شہزادہ مجھے کہیں نظر نہیں آ رہا۔ اس الاؤ کو نہ بھڑکاؤ، جب تک وہ مجھے مل نہیں جاتا۔“
”محبوب کی آواز؟ دیکھو وہ آ رہا ہے۔ پہاڑیوں پرسے کودتا ہوا۔ ٹیلوں کو پھلانگتا ہوا، چلا آ رہا ہے۔ وہ آہو کی طرح ہے۔ جوان ہرن کی مانند ہے۔ کھڑکیوں سے جھانکتا ہے۔ وہ جھنجھریوں سے تاکتا ہے۔“
وہ پکار رہا ہے۔
”اٹھ میری پیاری! میری نازنیں! چلی آ۔ دیکھ جاڑا گزر گیا، مینہ برس چکا، مطلع صاف ہو گیا۔ اب موسم بہار ہے۔ زمین پھولوں سے لد چکی، پرندے چہچہا رہے ہیں۔ ہماری سر زمیں پر قمریوں کی کو کو سنائی دے رہی ہے۔ انجیر کے درختوں پر ہرے ہرے موتی آ چکے ہیں۔ تاکیں پھولنے لگی ہیں۔ ان کی مہک چہار اور پھیل گئی ہے، سو اٹھ میری پیاری، میری جمیلہ، آ، چلی آ، میرے پاس۔
اے میری کبوتری! تو جو چٹانوں کی دراڑوں میں بیٹھی ہے، کواڑوں کی آڑ میں چھپی ہے، تو مجھے اپنا مکھڑا دکھا۔ مجھے اپنی مدھ بھری آواز سنا۔ اے میری مہ جبیں، اے میری شیریں سخن تو کہاں ہے؟ ”
”ہاں! میرا محبوب میرا ہی ہے، صرف میرا اور میں اس کی۔ وہ سوسنوں کے درمیاں اپنی بھیڑوں کو چراتا ہے۔ آ! میرے محبوب، اب آ جا۔ دیکھ دن ڈھلنے لگا ہے۔ سائے لمبے ہو چکے ہیں۔ تو غزال کی طرح، جوان ہرن کی طرح بیتھر کی دشوار گزار اور کٹھن پہاڑیوں کو پھلانگتا ہوا، آ جا۔“
اس قدیم گیت میں سلیمان بادشاہ کی بارات کا ذکر موجود ہے۔ بارات کی شان و شوکت ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے۔
”یہ کون ہے جو مر اور لبان سے اور سوداگروں کے تمام عطروں سے معطر ہو کر بیابان سے دھوئیں کے ستون کی مانند چلا آتا ہے؟
دیکھو یہ سلیمان کی پالکی ہے۔ جس کے ساتھ ماہر جنگیات، شمشیر بکف ساٹھ اسرائیلی بہادر پہلوان ہیں۔
سلیمان بادشاہ نے لبنان کی لکڑیوں سے اپنے لئے ایک پالکی بنوائی۔ اس کے ڈنڈے چاندی کے بنوائے۔ اس کی نشست سونے کی، گدی ارغوانی بنوائی۔ اس کے اندر کا فرش یروشلم کی بیٹیوں نے عشق سے مرصع کیا۔ اے صیہون کی بیٹیو! باہر نکلو اور سلیمان بادشاہ کو دیکھو۔ اس تاج کے ساتھ جو اس کی ماں نے اس کے بیاہ کے دن، دل کی شادمانی کے دن اس کے سر پر رکھا۔
اس عشقیہ کہانی کو سلیمان کا گیت بھی کہتے ہیں۔ بائبل کے بعض مفسرین کے مطابق اس کو سلیمان نے ہی لکھا۔ اس گیت میں سلیمان کے الفاظ اور تشبیہات انتہائی خوبصورت ہیں۔
”تیری زلفیں بکریوں کے ریوڑ کی طرح ہیں جو کوہ جلعاد سے نیچے اتر رہا ہو۔ دانت بھیڑوں کے اس گلے کی مانند ہیں جن کے تازہ تازہ بال کاٹے گئے ہوں اور وہ نہا کر نکلی ہوں۔ تیرے ہونٹ قرمزی ڈورے ہیں۔ تیرا منہ دلفریب ہے۔ کنپٹیاں تیرے نقاب کے نیچے انار کے ٹکڑوں کی مانند ہیں۔ گردن داؤد کا برج ہے جو سلاح خانہ کے لئے بنا جس پر ہزار سپریں لٹکائی گئی ہیں۔ وہ سب کی سب پہلوانوں کی سپریں ہیں۔ تیری دونوں چھاتیاں دو توام آہو بچے ہیں جو سوسنوں میں چرتے ہیں۔
اے میری پیاری! تو سراپا جمال ہے۔ بے داغ ہے، بے عیب ہے۔
اے میری زوجہ! آنکھ کے ایک اشارے سے تو نے میرا دل غارت کر دیا۔ اپنے نکلس کے ایک موتی سے اسے تاراج کر لیا۔
تیرا عشق کیا خوب ہے! تیری محبت مے سے زیادہ لذیذ ہے اور تیرے عطروں کی مہک ہر طرح کی خوشبو سے بڑھ کر ہے۔ اے میری زوجہ! تیرے ہونٹوں سے شہد ٹپکتا ہے۔ تیری زبان تلے شہد و شیر کے سوتے پھوٹتے ہیں۔
میری پیاری، میری زوجہ ایک مقفل باغیچہ ہے۔ محفوظ چشمہ اور مختوم فوارہ ہے۔ تیرے باغ کے پودے لذیذ میوہ دار انار ہیں۔ مہندی اور سنبل بھی ہیں۔ جٹاماسی اور زعفران۔ بید مشک اور دار چینی اور لبان کے تمام درخت۔ مرا اور عود اور ہر طرح کی خالص خوشبو۔ تو باغوں میں ایک آب حیات کا چشمہ اور لبنان کا جھرنا ہے۔ ”
بادشاہ شولمیت کو اپنے محل میں لے آیا۔ بادشاہ کی ساٹھ ملکائیں تھیں۔ اس کے حرم میں اسی کنیزیں اور بہت سی کنواریاں بھی موجود تھیں۔ وہ اس کو بھی اپنی بیوی بنانا چاہتا تھا۔ لیکن شولمیت تو صرف اپنے محبوب کی تھی۔ محل میں رہتے ہوئے بھی وہ خواب اپنے محبوب کے ہی دیکھتی ہے۔
”اے باد شمال بیدار ہو! اے باد جنوب چلی آ! میرے باغ پر سے گزر تاکہ اس کی خوشبو پھیلے۔ میرا محبوب اپنے باغ میں آئے اور اپنے لذیذ میوے کھائے۔“
محبوب بھی بھاگا چلا آتا ہے، ”میں اپنے باغ میں آیا ہوں۔ اے میری پیاری! میری زوجہ! میں نے اپنا مر مع گوند جمع کر لیا۔ میں نے اپنا شہد بمع محال کھا لیا۔ میں نے اپنی مے بمع دودھ پی لی ہے۔“ وہ فوراً جواب دیتی ہے، ”میں سوتی ہوں پر میرا دل جاگتا ہے۔ میرے محبوب کی آواز ہے جو کھٹکھٹاتا ہے اور کہتا ہے میرے لئے دروازہ کھول میری محبوبہ! میری پیاری! میری کبوتری! میری پاکیزہ! دیکھ، میرا سر شبنم سے تر ہے اور زلفیں رات کی بوندوں سے نم ہیں۔ میں نے اپنے محبوب کے لئے دروازہ کھولا لیکن میرا محبوب مڑ کر چلا گیا تھا۔ میرا دل ڈوب گیا۔ میں نے اسے پکارا، اس نے مجھے کچھ جواب نہ دیا۔ میں نے اسے ڈھونڈا، کہیں نہ پایا۔ پہرے دار جو شہر میں پھرتے ہیں مجھے ملے۔ انہوں نے مجھے مارا اور گھایل کیا۔ شہر پناہ کے محافظوں نے میری چادر مجھ سے چھین لی۔“
وہ یروشلم کی عورتوں سے اپنے محبوب کو تلاش کرنے کے لئے مدد مانگتی ہے تووہ پوچھتی ہیں کہ اے عورتوں میں سب سے جمیلہ! تیرے محبوب کو کسی دوسرے پر کیا فوقیت ہے جو تو اتنی بیتاب ہے۔
”میرا محبوب سرخ و سفید ہے۔ وہ دس ہزار میں ممتاز ہے۔
اس کا سر خالص سونا ہے۔ اس کی پیچ در پیچ زلفیں کالا ناگ ہیں۔ اس کی آنکھیں ان کبوتروں کی مانند ہیں جو دودھ میں نہا کر لب دریا تمکنت سے بیٹھے ہوں۔
اس کے رخسار پھولوں کے چمن اور بلسان کی ابھری ہوئی کیاریاں ہیں۔ اس کے ہونٹ سوسن ہیں جن سے رقیق مر ٹپکتا ہے۔ اس کے بازو زبرجد سے مرصع سونے کے حلقے ہیں۔ اس کا پیٹ ہاتھی دانت کا کام ہے جس پر نیلم کے پھول بنے ہوں۔
اس کی ٹانگیں کندن کے پایوں پر سنگ مرمر کے ستون ہیں۔ ہاں وہ سراپا عشق انگیز ہے۔ اے یروشلم کی بیٹیو! یہ ہے میرا محبوب۔ یہ ہے میرا پیارا۔ ”
محل کی خواتین اسے سمجھاتی ہیں۔ رانیاں اور کنیزیں اس کی ستائش کرتی ہیں۔ بادشاہ اس کو بہت چاہتا ہے اور اپنی خواہش کا اظہار کرتا ہے۔
”یہ کون ہے جس کا ظہور صبح کی مانند ہے جو حسن میں ماہتاب اور نور میں آفتاب اور علمدار لشکر کی مانند مہیب ہے؟
اے شہزادے کی بیٹی! تیرے پاؤں جوتیوں میں کیسے خوبصورت ہیں! تیری رانوں کی گولائیاں ان زیوروں کی مانند ہے جن کو کسی استاد کاریگر نے بنایا ہو۔ تیری ناف گول پیالہ ہے جس میں شرابوں کے آمیزہ کی کبھی کمی نہیں ہوتی۔ تیرا پیٹ گیہوں کا انبار ہے جس کے گردا گرد سوسن ہوں۔ تیری آنکھیں بیت ربیم کے پھاٹک کے پاس حسبون کے چشمے ہیں۔ تیری ناک لبنان کے برج کی مثال ہے جو دمشق کے رخ بناہے۔ تیرا سر تجھ پر جبل کارمل کی طرح سجا ہوا ہے، تیرے گیسو منقش شاہی پردوں کی طرح ہیں۔ جن کا بادشاہ اسیر ہے۔ اے محبوبہ! عیش و عشرت کے لئے تو کیسی جمیلہ اور جانفزا ہے۔
یہ تیری قامت کھجور کی مانند ہے اور تیری چھاتیاں کھجور کے گچھے ہیں۔ میں اس کھجور پر چڑھوں گا اور اس کا پھل پاؤں گا۔ تیرے سانسوں کی خوشبو سیب جیسی ہے۔ تیرا منہ بہترین شراب کی مانند۔ ”
لیکن شولمیت تامل کرتی ہے۔ وہ جواب دیتی ہے۔
”کاش یہ شراب سیدھی میرے محبوب کے پاس جائے اور اس کے منہ اور دانتوں پر آہستہ آہستہ بہہ جائے۔ میں اپنے محبوب کی ہوں اور وہ میرا مشتاق ہے۔ اے میرے محبوب آ چلیں، کھیتوں میں سیر کریں اور رات گاؤں میں کاٹیں۔ پھر تڑکے انگورستانوں میں چلیں اور دیکھیں کہ آیا تاک شگفتہ ہیں۔ ان میں پھول نکلے ہیں۔ انار کی کلیاں کھلی ہیں یا نہیں۔ وہاں میں تجھے اپنی محبت دکھاؤں گی۔“
وہ بادشاہ جس کی حکومت پورب سے پچھم تک پھیلی ہوئی تھی، جس کے احکامات کے سامنے اتر کے پہاڑوں پر بسنے والی غیر مرئی مخلوقات بھی سر جھکتی تھیں، جس کی فوج کے حرکت میں آتے ہی دکھن کے صحراؤں میں رینگنے والی چیونٹیاں بھی بلوں میں گھس جاتی تھیں، جس کا حکم چرند پرند سمیت سب جانداروں پر چلتا تھا، ایک کمزور سی لڑکی کی محبت کو فتح کرنے میں ناکام ہو گیا۔ وہ جان گیا کہ اس عشق کے سامنے تخت سلیمان بھی ہیچ ہے۔
غایت درجے کا تعشق و پیار دیکھ کر بادشاہ اسے جانے دیتا ہے۔ یہ کون ہے جو بیاباں سے اپنے محبوب پر جھکی ہوئی آ رہی ہے۔ وہ گاتی ہوئی آ رہی ہے۔
”میں نے تجھے سیب کے درخت کے نیچے جگایا۔ جہاں تو اپنی ماں کے بطن میں آیا۔ جہاں تیری والدہ نے تجھے جنم دیا۔
نگین کی مانند مجھے اپنے دل سے لگا کر رکھ اور تعویذ کی مانند اپنے بازو پر۔ عشق موت کی مانند زبردست ہے اور اس کی لگن قبر جیسی ہے۔ اس کے شعلے آگ کے شعلے ہیں، ایسے شعلے جو ہیبت ناک ہیں۔ سیلاب محبت کو بہا کر نہیں لے جا سکتے اور دریا اس آگ کو بجھا نہیں سکتے۔ اگر کوئی اپنے گھر کی پوری دولت دے کر بھی محبت خریدنے کی خواہش کرتا ہے تو وہ محبت کی توہین کر تا ہے۔ ”
گیت کا اختتام ایک خوبصورت کورس پر ہوتا ہے جسے سب لوگ مل کر گاتے ہیں۔
”ہماری ایک چھوٹی بہن ہے۔ ابھی اس کی چھاتیاں جوان نہیں ہوئیں۔ جس روز اس کی بات چلے ہم اپنی بہن کے لئے کیا کریں؟
اگر وہ دیوار ہو تو ہم اس پر چاندی کا برج بنائیں گے اور اگر وہ دروازہ ہو تو ہم اس پر دیودار کے تختے لگائیں گے۔ ”
وہ جواب دیتی ہے۔
میں دیوار ہوں اور میری چھاتیاں برج ہیں۔ میں اس کے لیے باعث اطمینان ہوں گی۔
بعل ہامون میں سلیمان کا تاکستان ہے جو اس نے باغبانوں کے سپرد کیا۔ ان میں سے ہر ایک اس کے پھل کے بدلے ہزار مثقال چاندی پاتا ہے۔ میرا تاکستان جو میرا ہی ہے میرے سامنے ہے۔ اے سلیمان! توتو ہزار لے اور اس کے پھل کے نگہبان دو سو پائیں (ہمیں ہزار مثقال چاندی نہیں چاہیے، وہ تو لیتا جا۔ ہمیں اپنے کھیت سے ملنے والی دو سو مثقال چاندی ہی کافی ہے۔ ) ”
محبوب پکارتا ہے۔
”اے بوستان میں رہنے والی! اپنی ہمجولیوں کے ساتھ۔ میں تیری آواز سننے کو ترس گیا ہوں۔“
شولمیت پکار اٹھتی ہے،
آ، میرے محبوب! جلدی آ اور اس غزال یا آہو بچے کی مانند ہو جا جو بلسانی پہاڑیوں پر ہے۔ ”(بھاگ کر آ، اب جدائی ناقابل برداشت ہے۔ )
سید محمد زاہد