قریب آئے سماعت کو آشنائی دے
وہ اک صدا جو کہیں دور سے سنائی دے
نہ چاند نکلا نہ کھڑکی کوئی گلی میں کھلی
بھٹک رہا ہوں کہ رستہ مجھے دکھائی دے
یقیں نہیں تو چلے آؤ مانگ کر دیکھو
وہ کیا ہے جو نہ یہاں قُربِ اولیائی دے
خموش لہجے کی الجھن سمجھ, نہ پھیر آنکھیں
ضرورتوں کو دلاسا ہی میرے بھائی دے
درِ طلب کو مقفل فقیر کیوں نہ کرے
بڑا کٹھن ہے کسی کو خدا خدائی دے
میں عکس آنکھ سے بچھڑا تلاش کر لوں گا
یہ آئنہ مجھے دیوار تک رسائی دے
کوئی تو باندھ کے لائے چراغ کو ارشاد
سفر خراب کیا, جرم کی صفائی دے
ارشاد نیازی