آنسو مری آنکھوں میں ہر دم جو نہ آجاتا
تو کام مرا اچھا پردے میں چلا جاتا
اصلح ہے حجاب اس کا ہم شوق کے ماروں سے
بے پردہ جو وہ ہوتا تو کس سے رہا جاتا
طفلی کی ادا تیری جاتی نہیں یہ جی سے
ہم دیکھتے تجھ کو تو تو منھ کو چھپا جاتا
صد شکر کہ داغ دل افسردہ ہوا ورنہ
یہ شعلہ بھڑکتا تو گھر بار جلا جاتا
کہتے تو ہو یوں کہتے یوں کہتے جو وہ آتا
یہ کہنے کی باتیں ہیں کچھ بھی نہ کہا جاتا
ان آنکھوں سے ہم چشمی برجاہے جو میں جل کر
بادام کو کل یارو مجلس ہی میں کھا جاتا
صحبت سگ و آہو کی یک عمر رہی باہم
وہ بھاگتا مجھ سے تو میں اس سے لگا جاتا
گر عشق نہیں ہے تو یہ کیا ہے بھلا مجھ کو
جی خودبخود اے ہمدم کاہے کو کھپا جاتا
جوں ابر نہ تھم سکتا آنکھوں کا مری جھمکا
جوں برق اگر وہ بھی جھمکی سی دکھا جاتا
تکلیف نہ کی ہم نے اس وحشی کو مرنے کی
تھا میر تو ایسا بھی دل جی سے اٹھا جاتا
میر تقی میر