ایک پرواز دکھائی دی ہے
تیری آواز سنائی دی ہے
صرف اِک صفحہ پلٹ کر اس نے
ساری باتوں کی صفائی دی ہے
پھر وہیں لوٹ کے جانا ہوگا
یار نے کیسی رہائی دی ہے
جس کی آنکھوں میں کٹی تھیں صدیاں
اس نے صدیوں کی جُدائی دی ہے
زِندگی پر بھی کوئی زور نہیں
دِل نے ہر چیز پرائی دی ہے
آگ میں رات جلا ہے کیا کیا
کتنی خوش رنگ دکھائی دی ہے