- Advertisement -

آب گزیدے

ایک افسانہ از ایم مبین

آب گزیدے
بارش کا زور لمحہ بہ لمحہ بڑھتا جا رہا تھا اور کھاڑی کے پانی کی سطح بھی۔

دو دن سے مسلسل بارش ہو رہی تھی اور ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں رکی تھی۔ آس پاس کی علاقوں میں بھی شدت کی بارش ہو رہی تھی۔ اس بارش کا پانی ندی نالوں کے ذریعے آ کر کھاڑی میں مل رہا تھا اور کھاڑی کی سطح بڑھتی جا رہی تھی۔ کھاڑی کے گدلے کھارے پانی کی جگہ مٹیلے پانی نے لے لی تھی۔

ان کی چال کے سامنے کندھے تک پانی جمع ہو گیا تھا۔ پانی چال کی سیڑھیوں کو پار کر تا اب دھیرے دھیرے گھروں میں آنے لگا تھا چال کے نچلے کمروں کی سطح کچھ نیچی تھی ان میں ۲، ۴ انچ پانی بھر گیا تھا۔

خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگی تھیں۔

جو پل کھاڑی سے شہر کو جوڑتا تھا وہ بہت پہلے ڈوب گیا تھا۔ اور جو راستہ آبادی سے پل تک جاتا تھا بہت پہلے ہی زیر آب ہو چکا تھا۔ چاروں طرف صرف پانی ہی پانی پھیلا ہو ا تھا اس لیے اس بات کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہو گیا تھا۔ کہ کہاں کھاڑی کا حصہ ہے اور کہاں پل تک جانے والا راستہ ہے۔

پہلے کچھ جیالے اندازے سے اس راستہ کا اندازہ لگا کر دھیرے دھیرے پانی میں سے ہوتے پل تک پہو نچنے کی کو شش کر تے ہوئے پل سے گزر کر شہر جانے کی کوشش کر تے رہے تھے۔

لیکن راستہ ڈوب جانے کے بعد راستے پر پانی کا بہاؤ بھی تیز ہو گیا تھا۔ اس جگہ پاؤں رکھا نہین جا رہا تھا۔ پاؤں رکھتے ہی پانی کا تیز بہاؤ پاؤں کو اکھاڑنے کی کوشش کر تا تھا۔

ماضی میں ایسی صورت حال میں اس راستے سے گزرنے کی کوشش کرنے والے کئی افراد بہہ کر لقمۂ اجل بن چکے تھے اس لیے عقل مند لوگ اس طرف نہیں جا رہے تھے۔

کھاڑی کے پل کے دونوں جانب سوشل ورکر سرگرم ہو گئے تھے۔

انھوں نے رسیاں باندھ دی تھیں اور لوگوں کو پل کی طرف جانے سے روک رہے تھے۔

اس علاقے میں جو دوتین چالیاں تھیں ان میں بھی سر گرمیاں تیز ہو گئی تھیں۔

ان میں سے ایک چال تو مکمل طور پر زیر آب ہو چکی تھی۔

اس کے مقیم پہلے ہی اسے چھوڑ کر محفوظ مقامات پر جا چکے تھے۔

یہی صورت حال رہی تو کچھ دیر میں دوسری چال کا نمبر آنے والا تھا جب دوسری زیر آب ہو جاتی تھی تو پھر یقینی طور پر تیسری بھی ڈوب جاتی تھی۔

رات ہو گئی تھی بجلی تو نہیں تھی۔ چاروں طرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔

شام کو ہی سوشل ورکروں اور محلے کے لڑکوں کا ایک گروپ تمام چالوں کے مکینوں کو وارننگ دے گیا تھا۔

’’پانی کی سطح مسلسل بڑھ رہی ہے۔ رات ۱۲ بجے کی بھر تی ہے جس کی وجہ سے پانی کی سطح بے انتہا بڑھ جائے گی۔ اور اندھیرے اور آدھی رات میں آپ لوگوں کو گھروں سے نکلنا مشکل ہو جائے گا۔ کیونکہ آس پاس سر تک پانی بھرا ہے۔ ایسی صورت حال میں ماہر تیراک ہی پانی کے بہاؤ کے خلاف تیر کر ا س جگہ سے نکل سکتے ہیں ظاہر سی بات ہے کہ آپ لوگ اتنے ماہر تیراک تو نہیں ہیں۔ بچے،بوڑھے، عورتیں تو تیر نہیں سکتے۔ اپ لوگوں سے گزارش ہے کہ خطرے کے پیش نظر آپ لوگ گھروں کو چھوڑ دیں۔ اسکو لیں کھول دی گئی ہیں۔ آپ لوگوں کا وہاں پناہ کا انتظام بھی کر دیا گیا ہے رات کا کھانا بھی آپ کو وہاں ملے گا۔ برائے مہر بانی آپ اپنے اپنے کمرے خالی کر دیں۔

جو کچھ ہو رہا ہے اور جو کچھ ہونے والا تھا یہ ان کے لیے کوئی نیا واقعہ نہیں تھا وہ برسوں سے وہاں رہتے تھے اور ہر سا ل دو تین بار اس طرح کی صورت حال میں گھر تے تھے۔ اس لیے آنے والے خطرات اور مشکلات کا انھیں اچھی طرح علم تھا۔ انھیں بتانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔

لیکن کبھی کبھی ایسا بھی ہو تا تھا کہ بارش کا پانی گھروں میں گھستا تھا بارش رک جاتی تھی پانی اترنے لگتا تھا اور ایک دو گھنٹے میں پانی کھاڑی کی معمول کی سطح تک پہونچ جاتا تھا۔

اسی امید پر وہ اندازہ لگا رہے تھے کہ کیا ہونے والا ہے اور کیا کیا خطرے پیش آ سکتے ہیں۔

بارش ہوتی رہی تو ظاہر سی بات ہے کہ جن باتوں کا خطرہ وہ لوگ ظاہر کر رہے ہیں وہی ہو گا۔ بارش رک گئی تو دو گھنٹے میں پانی اتر جائے گا اور وہاں پانی کا ایک قطرہ بھی باقی نہیں رہے گا۔ باقی رہے گا صرف پانی کے ساتھ بہہ کر آیا کیچڑاور گندگی۔

یہ طے کیا گیا کہ بچوں عورتوں اور بوڑھوں کی تو محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا جائے جو جوان ہیں اورتیرنا جانتے ہیں گھر اور گھر کے سامان کی حفاظت کے لیے رک جاتے تھے ان مچانوں پر منتقل ہو جاتے تھے۔

نیچے پانی بھر جاتا تھا۔ کبھی کبھی پانی کی سطح مچانوں کو بھی چھونے لگتی تھی لیکن پھر دھیرے دھیرے پانی اتر نے لگتا اور حالات معمول پر آ جاتے تھے۔

اس لیے بچوں عورتوں اور بوڑھوں کو فوراً محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا گیا۔ وہ لوگ محفوظ مقامات پر جس راستے سے جا رہے تھے وہ بھی خطرے سے خالی نہیں تھا۔ ان راستوں پر کہیں کہیں کمر تک اور کہیں کاندھے تک پانی تھا۔ لیکن پانی ایک جگہ رکا ہوا تھا بہہ نہیں رہا تھا اسی وجہ سے خطرے جیسی کوئی بات نہیں تھی۔

بچوں اور بوڑھوں کو کاندھوں پر سوار کر کے وہ لوگ وہاں سے گزرے اور محفوظ مقامات پر پہونچ گئے۔

ہر کمرے میں ایک ایک دو آدمی رک گئے۔

انھوں نے اپنے اپنے کمروں کا دروازہ اچھی طرح بند کر لیا۔

بارش کا زور بڑھتا جا رہا تھا اور اس کے ساتھ پانی کی سطح بھی۔ سب سے پہلے انھوں نے نیچے کے کمرے کا ضروری سامان جو پانی میں ڈوبنے، بھیگنے سے خراب ہو سکتا تھا اس کو اوپری حصے میں پہونچا یا۔

جو بڑا اور وزنی سامان تھا اسے اپنی جگہ پر رہنے دیا۔ کیونکہ کہ نہ تو پانی سے اسے کوئی نقصان پہونچ سکتا تھا اور نہ پانی اسے نقصان پہو نچا سکتا تھا۔

کمرے میں پانی کی سطح بڑھتی جا رہی تھی۔

کمروں میں کمر تک پانی بھر گیا تھا جس کے بعد وہاں رکنا مشکل ہو رہا تھا۔

پانی میں سمندر کے کھارے پانی، سڑی ہوئی مچھلیوں کی بھی بدبو شامل تھی اور طرح طرح کی گندی اشیاء اور کیمیکل فیکٹریوں کے باقیات کی بھی۔

ان تمام بدبوؤں کے ایک ساتھ مل جانے سے ایک عجیب طرح کی دماغ پھاڑ دینے والی بدبو تیا ر ہو رہی تھی جس کی وجہ سے سر بھا ری بھاری سا محسوس ہو رہا تھا سانس لینے میں دشواری محسوس ہو رہی تھی

وہ مچانوں پر محفوظ تھے لیکن ان کے لیے اس بدبو کو بر داشت کر نا مشکل ہو رہا تھا۔

وہ بری طرح پھنس گئے تھے۔

کیونکہ اب اس جگہ سے نکل بھی نہیں سکتے تھے آس پاس پھیلے پانی کی سطح اتنی گہری ہو چکی تھی کہ صرف تیر کر ہی وہاں سے گزرا جا سکتا تھا اور بارش کی اندھیری کالی رات میں راستہ تلاش کر نا اور بھی مشکل کام تھا۔

اس لیے تو وہ وہاں سے نہ نکل سکتے تھے نہ کسی کو اپنی صورت حال سے مطلع کر سکتے تھے نہ اس طوفانی اندھیری رات میں کوئی ان کی مدد کو آ سکتا تھا نہ ان کی خیرو خیریت دریافت کر سکتا تھا۔

نیند ان کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔

ایسی صورت حال میں بھلا کسی کو نیند آ سکتی ہے۔ نیچے پانی کی سطح لمحہ بہ لمحہ بڑھتی جا رہی تھی اور اس پانی کی بڑھتی سطح کے ساتھ ساتھ ان کے دلوں کی دھڑکنیں بھی تیز ہو تی جا رہی تھیں۔

اگر یہ سطح اس جگہ کو چھو گئی جہاں وہ بیٹھے ہیں تو ان کے لیے اس جگہ بیٹھنا بھی مشکل ہو جائے گا۔

خطرات تو کئی تھے جو ان کے سروں پر منڈ لا رہے تھے جن کے تصور سے ہی ان کی روح فنا ہو رہی تھی اور وہ اس وقت کو کوس رہے تھے جب انھوں نے اس جگہ رکنے کا فیصلہ کیا تھا۔ محلے کے بچوں اور سوشل ورکروں کی بات نہ مان کر دوسری محفوظ جگہوں پر منتقل نہیں ہوئے تھے۔

مانا ہر سال طوفان اتنا خوفناک نہیں ہوتا ہے۔

لیکن یہ بھی تو ضروری نہیں ہے کہ ہر سال طوفان خوفناک نہ ہو۔

اگر پانی کا کوئی طاقت و ریلہ آ کر کمرے کی دیوار سے ٹکرا یا اور دیوار ڈھ گئی تو؟

اس تصور سے ہی ان کی جان فنا ہو رہی تھی۔

دیوار گرنے کا مطلب تھا پورا کمرہ گر جائے گا۔ وہ مچان بھی گر جائے گا جس پر وہ بیٹھے ہیں ان کا سار اسامان اسباب جس کی حفاظت کے لیے وہ وہاں رکے ہیں پانی میں بہہ جائے گا اور وہ بھی مکمل طور پر پانی کے رحم وکرم پر ہوں گے۔

مانا انھیں تیرنا آتا ہے۔ زندگی کھاڑی کے کنارے گزاری ہے۔ اس لیے تیرنا تو سیکھ گئے ہیں لیکن اس سیلابی پانی کے ریلوں میں تیرنے کا انھیں تجربہ نہیں ہے وہ اس میں تیر پائیں گے بھی یا نہیں ؟

انھیں خود اس بات کا اندازہ نہیں ہے۔

’’دھڑام‘‘

ایک دھماکے کی آواز طوفانی بارش کا سینہ چیرتی فضا میں گونجی اور ان کے دل دھڑک اٹھے۔

جس بات کے خدشے میں وہ گھرے ہوئے تھے وہ خدشہ کمرہ نمبر ۳ کے ساتھ پیش آیا تھا۔

پانی کا ایک مضبوط ریلہ کمرہ نمبر ۳ کی دیوار کے ساتھ ٹکرایا تھا اور اس کمرے کی عقبی دیوار گر گئی تھی۔ اس کے ساتھ ہی فضا میں ’’بچاؤ بچاؤ‘‘ کا شور بھی ابھر نے لگا تھا۔

اس منظر کو نہ وہ دیکھ سکتے تھے اور نہ اس جگہ پہونچنے کی کوشش کر سکتے تھے کیونکہ آنے جانے کے تمام راستے مسدود تھے۔

نیچے پانی بھرا تھا۔ پانی کی سطح سر سے اوپر تھی اس لیے نہ تو وہ نیچے اتر سکتے تھے نہ دروازہ کھول کر باہر نکل سکتے تھے انھوں نے تصور ہی سے اندازہ لگا لیا کہ کیا ہوا ہو گا۔

کمرے کی دیوار گری ہو گی۔ دیوار گرنے کے ساتھ وہ مچان بھی گر گیا ہو گا جس پر گھر اور گھر کے سامان کی سیلاب کے پانی سے حفاظت کرنے کے لے جو لوگ اس پر بیٹھے ہوں گے وہ بھی پانی میں گرے ہوں گے اور پانی میں ڈوب رہے ہو گے۔ ڈوبتے ہوئے وہ آوازیں دے رہے ہوں گے کہ کوئی آ کر ان کو بچائے لیکن ان کی مدد کو کون آ سکتا تھا۔

ان کی آوازیں دور تک نہیں جا سکتی تھی جسے سن کر لوگ ان کی مدد کو آئے آس پاس کے کمروں میں جو لوگ تھے وہ اس بری طرح پھنسے ہوئے تھے جیسے پنجرے میں چوہے پھنس جاتے ہیں۔

زندگی اور موت کی کشمکش میں ڈوبی ان کی چیخیں فضا میں گونجتی رہیں۔ پھر معدوم ہو گئیں۔

پتہ نہیں ان کا کیا انجام ہو ا۔

آوازوں سے انھوں نے اندازہ لگا لیا وہ ان کے پڑوسی طارق اور اسلم تھے جو اپنے کمرے میں گھر کے سامان کی حفاظت کے لیے رکے تھے۔

پتہ نہیں ان کا کیا انجام ہوا۔

’نذیر بھائی محمود بھائی آپ ٹھیک تو ہے نا؟

تھوڑی دیر بعد ایک آواز ابھری یہ منظور کی تھی انھوں نے منظور کی آواز اچھی طرح پہچان لی تھی۔ وہ ان کی چال میں ہی رہتا تھا اور بہت اچھا تیراک تھا۔

’ہاں ہم محفوظ ہیں۔ دونوں نے جواب دیا۔ کیا ہو ا ہے ؟

’طارق کے کمرے کی دیوار گر گئی ہے۔ سارا سامان بہہ گیا ہے میں چال ک چھت پر چڑھ کر پنا ہ لینے کی کوشش کر تا ہوں۔ منظور کی آواز آئی۔

’منظور بھائی !ہمارے یا چال کے کسی اور کمرے کی بھی دیوار گر گئی تو؟

انھوں نے پوچھا۔

’اب تو بس اللہ ہی مالک ہے۔ ہم کچھ نہیں کر سکتے ہیں۔ خود کو اللہ کے بھرسے چھوڑ دو اور اس کا ذکر کرو۔ اتنی رات گئے اندھیرے میں کوئی بھی ہماری مدد کو نہیں آئے گا۔ ہما را یہاں رکنا سب سے بڑی بے وقوفی تھی اس بار حالات بہت خطرناک ہیں۔ ‘‘

منظور کی آواز آئی۔

انھوں نے اور ایک دو باتیں اس سے کرنی چاہی لیکن وہ شاید اپنے آپ کو کسی محفوظ مقام پر پہونچانے کے لیے آگے بڑھ گیا تھا۔

اچانک پانی کی سطح تیزی سے بڑھنے لگی۔

اور ایک کھاری سے بدبو ان کے نتھنوں سے ٹکرائی۔

’بھرتی کا وقت ہو گیا ہے۔ بھرتی آئی ہے اب بڑی تیزی سے پانی کی سطح بڑھے گی کیونکہ جوار بھا ٹا کی وجہ سے سمندر کا پانی تیزی سے کھاڑی میں گھس رہا ہے۔ اب تک بارش کا پانی سمندر میں جا رہا تھا اب بارش کا ایک قطرہ بھی سمندر میں نہیں جائے گا بلکہ سمندر کا پانی کھاڑی میں دور تک گھس آئے گا ‘‘انھوں نے سوچا۔

ایسا ہی ہوا تھا۔ جیسا انھوں نے سوچا تھا۔

کچھ دیر میں نیچے کا پورا کمرہ پانی میں ڈوب گیا اور پانی اس مچان پر بھی چڑھ آیا جس پر وہ بیٹھے تھے۔ اس مچان پر ایک فٹ کے قریب پانی بھر گیا۔

اب وہ پانی میں بیٹھے ہوئے تھے۔

پانی میں بیٹھے بیٹھے ان کے جسم شل ہونے لگے۔ اور سردی محسوس ہونے لگی۔

پانی کی سطح بڑھتے بڑھتے ان کے کاندھوں تک پہونچ گئی۔

اب انھیں خوف محسوس ہونے لگا۔

’بھائی !اس طرح پانی بڑھتا رہا تو ہم بری طرح پھنس جائیں گے۔ اوپر چھت ہے اور نیچے پانی۔ باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے اس طرح تو ہم پانی میں ڈوب کر مر جائیں گے۔ محمود نے نذیر سے کہا۔

’ہاں !سچ ہم مچ ہم بڑی مصیبت میں پھنس گئے ہیں۔ ’نذیر بڑبڑایا ‘اس وقت ان تمام لوگوں کا یہی حال ہو گا جو گھر چھوڑ کر نہیں گئے ہیں۔ ‘‘

آخر پانی سطح اتنی بڑھ گئی کہ انھیں مچان پر اٹھ کھڑا ہو نا پڑا اٹھنے سے ان کے سر چھت کو ٹکرانے لگے۔

پانی مچان پر بھی ان کے کاندھے تک آ گیا تھا۔

ساری تر کیبیں بیکار ہو گئی تھیں۔ ان کا سارا سامان پانی میں ڈوب گیا تھا۔ اور اب پانی میں ڈوبنے کی وجہ سے خراب ہو جانے والا تھا۔ جس کی حفاظت کے لیے انھوں نے اپنی جان جوکھم میں ڈالی تھی اب وہ سامان ہی باقی نہیں بچا تھا۔

اسے نہ وہ بچا سکتے تھے اور نہ بچانے کی کو شش کر سکتے تھے بے بسی سے اسے پانی میں ڈوب کر خراب ہوتا دیکھ رہے تھے۔

’بھائی پانی میرے منہ تک آ گیا ہے !’’محمود گھبرا کر بولا۔ ‘‘اس طرح تو ہم ڈوب کر مر جائیں گے۔ ہمیں اپنی جانیں بچانے کی کوئی کوشش کر نی چاہیے۔ ‘‘

’ایک ہی راستہ ہے۔ ’’نذیر بولا ‘‘میں چھت پر لگی کھپریل توڑتا ہوں۔ اس کے راستے ہم چھت پر چلے جاتے ہیں۔۔ اس طرح ہماری جان بچ سکتی ہے۔ ‘‘

’’کھلی چھت پر ہمیں بارش کی ما ر کھانی پڑے گی۔ ‘‘

’’جان دینے سے بہتر ہے کہ بارش کی مار کھا کر اپنی جان بچائی جائے۔ ‘‘

نذیر نے کہا اور وہ ایک جگہ سے چھت توڑنے لگا۔

چھت کھپریل اور کویلو کی تھی۔ اس لیے تھوڑی سی کوشش کے بعد اس نے چھت میں اتنا بڑا سوراخ بنالیا جس ک ذریعے وہ آسانی سے چھت پر پہونچ سکے۔

اس سوراخ کے ذریعے وہ چھت پر آ گئے۔ اور چال کی ڈھلوان پر اپنا توازن بر قرار رکھتے ہوئے ایک کونے میں جا بیٹھے۔

تھوڑی دیر میں ہی انھیں پتہ چل گیا۔ چال کے سبھی مکین ان کی طرح چھت توڑ کر جان بچانے کے لیے کھپریل پر پہونچ چکے ہیں۔

تیز بارش جاری تھی۔

بار ش کا پانی جسم سے ٹکراتا تھا ایسا محسوس ہوتا جیسے سوئیاں چبھ رہی ہیں سردی سے بدن کسی سوکھے پتے کی طرح کانپتا تھا۔

پانی کی سطح بڑھتی جا رہی تھی۔

پانی چھت تک اس مقام پر پہونچ گیا تھا جو چھت کی ڈھلوان تھی۔

سب خدا سے رحم اور سلامتی کی دعا مانگ رہے تھے۔

تین چار گھنٹے یہ قیامت جاری رہی۔ جوار بھاٹے کا وقت گزرتے ہی پانی تیزی سے اترنے لگا۔ سمندر کا پانی تیزی سے واپس سمندر میں جا رہا تھا پانی بھی اتر رہا تھا۔ و ہ چھتوں کے سوراخ کے ذریعے واپس اپنے اپنے کمروں میں آ گئے۔

مچان اور کمرے کا فرش کیچڑ اور بدبو میں ڈوبا تھا۔

ایک محفوظ کونے پر کھڑے ہو کر وہ صبح ہونے اور باقی پانی کے اتر نے کا انتظار کر رہے تھے۔

٭٭٭٭٭٭٭

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
اردو مزاحیہ مشتاق یوسفی کی تحریر