کائنات ایک کھلی کتاب کی مانند ہے۔ جب کبھی اس میں موجود تضادات پر غور کرتا ہوں تو عقل ماورائے فہم ٹھہر جاتی ہے۔ ہر شے اپنے ضد کے ساتھ مکمل ہے:
نیکی اور بدی
موت اور حیات
خیر اور شر
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک کے بغیر دوسرا نامکمل ہے۔
میرا سوال یہ ہے کہ: ان دونوں انتہاؤں کے درمیان جو کیفیت ہوتی ہے، وہ کیا ہے؟ اور وہ کس طرح اپنا وجود رکھتی ہے؟
استاد محترم
اگر ممکن ہو تو واصف علی واصفؒ کے اقوالِ مبارکہ کی روشنی میں اس کے بارے میں رہنمائی فرمائیں۔
جیسے وہ نیکی اور بدی کو ایک سکے کے دو رخ کہتے ہیں۔
ہم اثرات کو دیکھ کر یہ قیاس کر لیتے ہیں کہ یہ ایسے ہوا ہو گا۔ یہ ایسے ہی ہے۔ وغیرہ وغیرہ
کیا ہماری سوچ اس قابل یے کہ ہم ہونے اور نہ ہونے کو مکمل طور پر جان سکیں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ہم درمیانہ کیفیت کو سمجھ پائیں کہ یہ کیا ہے اور یہ کیفیت کتنی دیر قیام کر سکتی ہے؟
میرےگھر سے یہاں تک کا فاصلہ یہاں سے میرے گھر تک ہی ہے تو کونسا راستہ پہلے والے راستے سے بہتر ہے؟
میرے سوال کا جواب میرے استاد محترم شاہد مختار صاحب کے نقطہء نظر سے: –
دنیا کو دارالامتحان اس لیے کہا گیا ہے کیونکہ یہ تضادات کا مجموعہ ہے۔ – انسان میں فرشتوں کی عقل اور حیوانات کی خواہش دونوں رکھی گئی ہیں، اسی لیے اس سے احتساب ہوگا۔ – شیطان کو اللہ نے دلیل پیش کرنے کی آزادی دی، لیکن اس کے نظام میں معافی کی گنجائش نہیں۔ – تصوف کا سفر دوئی سے یکسوئی کی طرف ہوتا ہے، اور روحانی وارداتوں کو خاموشی سے سہنا بہتر ہے۔
جو لوگ شک اور الحاد سے گزر کر توحید تک پہنچتے ہیں، وہ معرفت کے راستے میں بہت آگے نکل جاتے ہیں۔ – علامہ اقبال نے ابلیس کو توحید کا بڑا دعوے دار قرار دیا، جس نے صرف خدا کو سجدہ کیا۔ – خدا تلاش سے نہیں، بلکہ متلاشی کو ملتا ہے؛ اور سچا متلاشی وہی ہے جو کبھی رک نہ جائے۔ * اس پیغام مقصد قاری کی سوچ میں مثبت تبدیلی پیدا کرنا ہے۔ * آپ بھی سوال کریں اور اپنی فکری سوچ میں بہتری لائیں ۔ یقیناً آپ کے ذہن اس قابل ہیں کہ وہ قاری کے ذہن میں مثبت سوچ کو متحرک کریں گے۔ یہ پیغام نہ صرف فکری وسعت پیدا کرے گا بلکہ آپ کے اندر کی کیفیات ایک ایسے طالب علم یا متلاشی حق کی طرف رجو کرے گا جو شک، سوال اور تلاش کے مراحل سے گزر رہا ہو۔ اس میں عاجزی، محبت اور علم کے ساتھ گفتگو کرنے کی محبت اور زہنی اور قلبی وسعت پیدا کرے گا۔
محمد مسعود صادق