سورج مکھی کے پھول ۔ شاعر
وقت اور دوزخ نے دن کو
دھند میں دفنا دیا ہے
اور آدم خور گِدھّوں کی طرح
اڑتے ہوئے بادل کے طاغوتی عزازیلوں نے
اپناراستہ بھولے ہوئے سورج کو انگلی سے پکڑ کر
سرحدِ افلاک سے باہر کیا ہے
جب سے سورج تیرگی کے غار میں
درد و تعب سے پھڑپھڑاتا
گم ہوا ہے
وقت جیسے رک گیا ہے
کس طرف دیکھیں گے اب
سورج مکھی کے پھول اپنے
بھولے بھالے خوشنما چہرے اٹھائے؟
سُوریہ پرنام کر کے شبد کا رس پینے والے
ہومرؔ و وَرجِلؔ یا ولیم شیکسپیئرؔ
تب یقیناً مرتے جائیں گے گھنی گہری اندھیری
سرد تاریکی میں دب کر!
(مرکزی استعارہ جزوی طور پر ٹی ایس ایلیٹ کی The Burnt Norton سے ماخوذ)
ستیا پال آنند