طریق خوب ہے آپس میں آشنائی کا
نہ پیش آوے اگر مرحلہ جدائی کا
ہوا ہے کنج قفس ہی کی بے پری میں خوب
کہ پر کے سال تلک لطف تھا رہائی کا
یہیں ہیں دیر و حرم اب تو یہ حقیقت ہے
دماغ کس کو ہے ہر در کی جبہہ سائی کا
نہ پوچھ مہندی لگانے کی خوبیاں اپنی
جگر ہے خستہ ترے پنجۂ حنائی کا
نہیں جہان میں کس طرف گفتگو دل سے
یہ ایک قطرئہ خوں ہے طرف خدائی کا
کسو پہاڑ میں جوں کوہکن سر اب ماریں
خیال ہم کو بھی ہے بخت آزمائی کا
بجا رہا نہ دل شیخ شور محشر سے
جگر بھی چاہے ہے کچھ تھامنا اوائی کا
رکھا ہے باز ہمیں در بدر کے پھرنے سے
سروں پہ اپنے ہے احساں شکستہ پائی کا
ملا کہیں تو دکھا دیں گے عشق کا جنگل
بہت ہی خضر کو غرہ ہے رہنمائی کا
نہ انس مجھ سے ہوا اس کو میں ہزار کہا
جگر میں داغ ہے اس گل کی بیوفائی کا
جہاں سے میر ہی کے ساتھ جانا تھا لیکن
کوئی شریک نہیں ہے کسو کی آئی کا
میر تقی میر