شام کی گنگناہٹوں میں گم
ہوں عجب ، سنسناہٹوں میں گم
دل کسی درد سے بھر آیا ہے
تھا تری مسکراہٹوں میں گم
بیتے لمحوں کا بوجھ ڈھو ڈھو کر
ہو گئی ہوں تھکاوٹوں میں گم
تیرا لہجہ تو روح کھینچتا ہے
جسم و جاں ہیں رکاوٹوں میں گم
آنکھ لائی تھی قرض بینائی
اب یہ ہے جگمگاہٹوں میں گم
چاندنی کھل کے رو نہیں سکتی
رات، دن کی لگاوٹوں میں گم
چہرے تو روشنی سے بنتے ہیں
آئینے ہیں بناوٹوں میں گم
میری پازیب رقص میں زخمی
بزم ہے جھنجھناہٹوں میں گم
آہ و نالہ کی تیز یورش میں
جسم ہے تھرتھراہٹوں میں گم
ہوں ابھی تیرے دل کے جنگل میں
گل رُتوں کی تراوٹوں میں گم
ہونٹ تک بات لا کے نیناں میں
کیوں ہوئی ہچکچاہٹوں میں گم
فرزانہ نیناں