- Advertisement -

کوئی فکر لو نہیں دے رہی

سعود عثمانی کی ایک اردو غزل

کوئی فکر لو نہیں دے رہی، کوئی شعرِ تر نہیں ہو رہا

رہِ نعت میں کوئی آشنا مرا ہم سفر نہیں ہو رہا

میں دیارِ حرف میں مضمحل، میں شکستہ پا، میں شکستہ دل

مجھے ناز اپنے سخن پہ تھا سو وہ کارگر نہیں ہو رہا

مرے شعر اس کے گواہ ہیں کہ حروف میری سپاہ ہیں

مگر اب جو معرکہ دل کا ہے، وہی مجھ سے سر نہیں ہو رہا

نہ تو علم میری اساس تھا، نہ میں رمزِ عشق شناس تھا

فقط اک ہنر مرے پاس تھا یہ جو بارور نہیں ہو رہا

مرے چار سمت یہاں وہاں، مرے ہر خیال کی دھجیاں

کہ حریمِ حرمتِ حرف میں کوئی معتبر نہیں ہو رہا

کسی زخمہ ور کی تلاش میں مرے تارِ جاں ہیں کھنچے ہوئے

مرے شہرِ دل کے سکوت میں کوئی نغمہ گر نہیں ہو رہا

مری بے حسی کی حیات پر مرے ماہ و سال گواہ ہیں

مری عمر یوں ہی گزر چلی، مرے دل میں در نہیں ہو رہا

یہ جو راہ میری طویل ہے، مری گمرہی کی دلیل ہے

مری منزلیں ہیں وہیں کہیں، مرا رُخ جدھر نہیں ہو رہا

سعود عثمانی

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
سعود عثمانی کی ایک اردو غزل