آپ کا سلاماردو شاعریاردو نظمعاصمہ فراز

شبِ آرزو

عاصمہ فراز کی اردو نظم

یہ طویل رات کی سختیاں
یہ محبتوں کی اذیتیں
مرے نیم مردہ وجود پر
یہ غموں کی بڑھتی سیاہیاں

مجھے کوٸی آکے سنبھال لے
مجھے کوٸی آکے نجات دے
مرے غم سے مجھ کو نکال دے
کبھی آ کہ تجھ کو خبر نہیں
ترے غم سے کوٸی نڈھال ہے

کبھی اس کا حال بھی پوچھ لے
بڑی دیر سے جو بے حال ہے
نہ مٹیں گی اب یہ سیاہیاں
مری روح میں جو اتر گٸیں
مرا جینا جس سے محال ہے

وہ گیا ہے جب سے یوں چھوڑ کے
مرا درد تب سے شدید ہے
مرا حوصلہ بے مثال ہے
میں تو اب بھی قاٸم وفا پہ ہوں
جو مجھے بھلا کے ہے جی رہا
اسے یاد رکھنا کمال ہے

مجھے ہے یقیں مرے رب پہ کے
مرے سارے غم وہ مٹاٸے گا
وہی میرا واقفِ حال ہے

شبِ آرزو ! تو گزر بھی جا
نہ طویل ہو مری بات سن
میں ہوں مطمٸن یہی سوچ کر
ترے بعد صبحِ وصال ہے

عاصمہ فراز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button