- Advertisement -

راتیں سمیٹ لوں گا سحر چھوڑ جاوْں گا

ایک اردو غزل از اعجاز عزائی

راتیں سمیٹ لوں گا سحر چھوڑ جاوْں گا
روشن چراغ سارے ادھر چھوڑ جاوْں گا

اڑتے ہوےْ شکار اگر ہو گیا تو میں
اپنے کھلی فضاوْں میں پر چھوڑ جاوْں گا

تعمیر کر سکانہ پرانے مکان کو
آنگن میں سایہ دار شجر چھوڑجاوْں گا

اپنوں کا یہ رویہ رہا تو حیات کا
آدھا کروں گا آدھا سفر چھوڑجاوْں گا

خاموش ہو گیا میں کسی مصلحت کے تحت
ذہنوں پہ گفتگو کا اثر چھوڑ جاوْں گا

پیچھے ہر آنے والے مسافر کے واسطے
ہموار کر کے راہ گزر چھوڑ جاوْں گا

شاید کہ کام آئیں کڑے وقت میں ترے
جاتے ہوئے یہ لعل و گہر چھوڑ جاوْں گا

اک روز میں عزائی سکوں کی تلاش میں
آخر یہ گردشوں کا نگر چھوڑ جاوْں گا

 اعجاز عزائی

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
منیر جعفری کی ایک اردو نظم