قہقہوں کے سائے میں گمشدہ پیاس کا سفر (حصہ آخرین)
پلوشہ کا اختتام
پلوشہ بائیک پر سوار تُرکی کی طرف روانہ ہو چکی تھی۔ سورج بلند تھا، اور سڑکیں خالی۔ مگر اس کے دل میں ایک خلش تھی۔
پلوشہ (خود سے):
"کچھ تو بھول گئی ہوں۔ کیا؟”
اچانک اس کے ذہن میں گوکچے کی دی ہوئی گولیوں کا خیال آیا۔ اس نے فوراً بائیک ایک سڑک کنارے روک دی اور جلدی سے اپنا بیگ کھول کر گولیوں کا پیکٹ نکالا۔
پلوشہ نے پیکٹ پر نظر ڈالی تو اس پر رے کی صورت جیسے ابھرتی دکھائی دی۔ وہ حیران رہ گئی اور گولیوں کو ہاتھ میں پکڑ کر سوچنے لگی۔
پلوشہ (دل میں):
"رے، تم نے کہا تھا کہ تمہیں غموں سے نکالوں۔ کیا میں نے یہ سب صرف ایک رات کے لیے کیا؟ نہیں، رے۔ تم میرے راجہ ہو، اور اب تمہیں اپنی سلطنت کا وارث چاہیے۔”
یہ کہتے ہوئے پلوشہ نے گولیوں کا پیکٹ ہوا میں اچھال دیا اور مسکراتے ہوئے بولی:
"شکریہ، گوکچے۔ تمہاری مدد کے لیے، مگر اب یہ گولیاں نہیں، بلکہ راجہ کے وارث کی ضرورت ہے۔”
اس نے فوراً اپنا تُرکی کا پروگرام منسوخ کیا اور رے کو فون کیا۔
پلوشہ (فون پر):
"رے، مجھے تم سے کچھ ضروری بات کرنی ہے۔”
رے (پریشان):
"پلو، سب خیریت ہے؟ کہاں ہو تم؟”
پلوشہ (مسکراتے ہوئے):
"رے، میں تُرکی نہیں جا رہی۔ تمہاری سلطنت کے وارث کی خوشخبری دینے کے لیے میں نے اپنا فیصلہ بدل دیا ہے۔”
رے (خوشی سے):
"پلو، تم وہیں رہو۔ تمہارا راجہ تمہیں لینے آ رہا ہے!”
بیس منٹ کے اندر رے اپنی گاڑی میں مطلوبہ جگہ پہنچ جاتا ہے۔ وہاں پلوشہ کھڑی ہوتی ہے، اپنے ہاتھ رے کی طرف بڑھائے ہوئے۔
رے (سینے سے لگاتے ہوئے):
"پلو، تم نے میری زندگی بدل دی۔”
پلوشہ (مسکراتے ہوئے):
"رے، اب تمہاری سلطنت کا وارث ہمارے ساتھ ہوگا۔”
تین دن بعد دونوں باکو کی کورٹ میں شادی کرتے ہیں۔ رے اور پلوشہ اب رسمی طور پر میاں بیوی بن جاتے ہیں۔
پلوشہ (رے سے):
"میرے راجہ، اب میں تمہارے ساتھ ہوں، ہمیشہ کے لیے۔”
رے (ہاتھ تھام کر):
"اور میں تمہاری سلطنت کا محافظ ہوں، ہمیشہ کے لیے۔”
پلوشہ اپنی بائیک کو باکو میں الوداع کہہ کر رے کے ساتھ آئرلینڈ کے شہر لمرک آ جاتی ہے۔ وہ دونوں مل کر "براون تھامس” کے نام سے ایک سپر اسٹور کھولتے ہیں، جو شہر کا مشہور کاروبار بن جاتا ہے۔
وقت کے ساتھ، مشرق اور مغرب کے حسین سنگم سے تین خوبصورت بچے پیدا ہوتے ہیں۔ بچے پلوشہ کی معصومیت اور رے کی جاذب نظری کے امتزاج کا شاہکار تھے۔
رات کو، جب دونوں کام سے فارغ ہو کر آرام کرنے جاتے ہیں، تو ان کے درمیان محبت اور جذبات کی آگ پھر سے بھڑک اٹھتی ہے۔
پلوشہ (مسکراتے ہوئے):
"میرے راجہ، آج کی رات بھی ہماری ہوگی!”
رے (چمکتے ہوئے):
"ہماری راتیں ہمیشہ کی طرح یادگار ہوں گی!”
پورے لمرک میں ایک بار پھر زلزلے کا جھٹکا محسوس ہوتا ہے، اور یہ جھٹکا کسی قدرتی آفت کا نہیں بلکہ راجہ اور رانی کی محبت کا تھا۔
آخری بات
اگر آپ کبھی لمرک جائیں اور رات کو زلزلے کے جھٹکے محسوس کریں، تو گھبرائیے گا مت۔ یہ صرف رے اور پلوشہ کی محبت کا ایک نیا باب لکھا جا رہا ہوگا، اور شاید ایک نئے وارث کی آمد کا اشارہ دے رہا ہوگا۔
شاکرہ نندنی