لباسِ شب میں لپٹا یہ جہاں تجھ سا نہیں،
دلکشی کی ایسی صورت کہکشان تجھ سا نہیں۔
کیا ترے رخسار پہ ماہِ تمام اُترا ہے؟
نور کی ہر ایک کرن کا رازداں تجھ سا نہیں۔
زلف کی خوشبو میں گم ہیں باد و صحرائے خیال،
چشمِ حیرت کی قسم، یہ گلستاں تجھ سا نہیں۔
حسن میں تُو مثلِ غزل، نغمۂ خوابیدہ ہے،
شاعری کی ہر نوا کا ہم زباں تجھ سا نہیں۔
شاکرہ نے لفظ کو گویا بدن پہنا دیا،
عشق کا یہ نرم پہلو، مہرباں تجھ سا نہیں۔
شاکرہ نندنی