اردو غزلیاتشعر و شاعریمیر تقی میر

میں جوانی میں مے پرست رہا

میر تقی میر کی ایک غزل

میں جوانی میں مے پرست رہا
گردن شیشہ ہی میں دست رہا

در میخانہ میں مرے سر پر
ظل ممدود دار بست رہا

سر پہ پتھر جنوں میں کب نہ پڑے
یہ سبو ثابت شکست رہا

ہاتھ کھینچا سو پیر ہوکر جب
تب گنہ کرنے کا نہ دست رہا

آنسو پی پی گیا جو برسوں میں
دل درونے میں آب خست رہا

جب کہو تب بلند کہیے اسے
قد خوباں کا سرو پست رہا

میر کے ہوش کے ہیں ہم عاشق
فصل گل جب تلک تھی مست رہا

میر تقی میر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

Back to top button