چراغ کر کے کشید اُس بدن کا سایہ بنا
گُلاب صرف ہوئے کتنے تب وہ چہرہ بنا
میں آنکھ بند کروں اور وہ چلا آئے
نہ پہلے ایسا ہوا تھا کبھی، نہ ایسا بنا
نجانے کیوں میری آنکھوں کے درمیاں آ کر
وہ پہلے جسم بنا، اور پھر ستارہ بنا
یہ حُسن تو کبھی محتاجِ فن نہیں ہوتا
ہمارے ہاتھ کٹے ہیں تو اُس کا چہرہ بنا
تلاش ہے مجھے، مجھ سے بچھڑنے والوں کی
اب اس قدیم کھنڈر میں کوئی دریچہ بنا
یہ زندگی تو جُدائی کی شام ہے محبوبؔ
تو اپنے ہاتھ پہ بچھڑے ہوؤں کا نقشہ بنا
محبوب صابر