پہلے ذرا محاسبۂ ذات بھی تو ہو
دنیا پڑی ہے گھر سے شروعات بھی تو ہو
سمجھے ہیں سب انا کے دھندلکے کو روشنی
شمعیں کہاں جلاؤں کہیں رات بھی تو ہو
پنہاں ہے آنسوؤں میں سراغ شگفت گل
صحرائے بے ضمیر میں برسات بھی تو ہو
اک مسئلے کے بعد نیا مسئلہ ہے روز
کچھ معتبر یہ گردش حالات بھی تو ہو
چہرے سے دل کا حال پڑھیں اور رو بھی لیں
جس سے ملے ہیں اس سے ملاقات بھی تو ہو
مشکل نہیں ہواؤں میں جلنے لگیں چراغ
شب زاد راستوں میں ترا ساتھ بھی تو ہو
میں تبصرہ کروں نہ خدا کی زمین پر
ٹھوکر لگے بنا گزر اوقات بھی تو ہو
لمحوں کی مٹھیوں میں ہے صدیوں کی روشنی
لیکن نظر میں وقت کی اوقات بھی تو ہو
قیصرالجعفری