فرحت پروین: نفسیات کی گتھیاں سلجھانے والی افسانہ نگار
اگر میرا اواگون پر ایمان ہوتا تو میں کہتا کہ اس جنم کی افسانہ نگار فرحت پروین پچھلے جنم میں ضرور ایک ماہر نفسیات رہ چکی ہیں۔
فرحت پروین کے افسانے جوں جوں آگے بڑھتے ہیں وہ افسانے کے کرداروں کی شخصیت کی پرتیں اور ان کے تضادات کی گرہیں کھولتی چلے جاتے ہیں۔
بعض دفعہ یوں لگتا ہے وہ نفسیاتی جراحی کر رہی ہوں لیکن اس جراحی میں کہیں بھی ان کے ہاتھ نہیں کانپتے اور وہ جذبات کی تحلیل نفسی کرتے ہوئے کہیں بھی بقول احمد ندیم قاسمی ’جذباتیت‘ کا شکار نہیں ہوتیں۔
فرحت پروین کا ہر افسانہ اپنے اندر زندگی کا ایک راز لیے ہوئے ہوتا ہے اور جو قاری اسے سنجیدگی سے پڑھتا ہے وہ ان کا ہمراز بن جاتا ہے۔
فرحت پروین کے افسانے اردو کے قدیم اور جدید افسانوں کا خوشگوار اور حیرت انگیز امتزاج ہیں۔ ان میں کہانی پن بھی ہے تشبیہوں اور استعاروں کا خوبصورت استعمال بھی۔ ان میں ابلاغ بھی ہے اور تجرید بھی۔ ان کی علامتیں نئی بھی ہیں اور معنی خیز بھی۔
فرحت پروین کے افسانوں میں گہرائی بھی ہے گیرائی بھی اور دانائی بھی۔ میں نے ان کے افسانوں سے فن افسانہ نگاری اور انسانی نفسیات کے کئی راز جانے اور سیکھے۔ وہ اردو ادب میں فن افسانہ نگاری کی ایک توانا آواز ہیں۔
چونکہ فرحت پروین کی شخصیت میں معصومیت کے ساتھ ساتھ ایک درویشانہ بے نیازی بھی ہے اس لیے انہیں اردو ادب میں ابھی تک وہ شہرت اور ہر دلعزیزی نہیں ملی جن کی وہ بجا طور پر مستحق ہیں۔
فرحت پروین کی انسانی نفسیات کی بصیرتوں سے گہری آشنائی ہے۔ میں اپنے اس موقف کی وضاحت کے لیے ان کے صرف دو افسانوں کے چند حوالے پیش کرنا چاہتا ہوں تا کہ آپ ان کے فن کے کمال سے متعارف ہو سکیں۔
فرحت پروین کے پہلے افسانوی مجموعے کا پہلا افسانہ ’منجمد‘ ہے۔ جو لوگ شمالی امریکہ میں سردیوں کا موسم گزار چکے ہیں وہ اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ دسمبر جنوری اور فروری میں جب درجہ حرارت منفی 30 سنٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے تو سردی کی شدت اتنی بڑھ جاتی ہے کہ انسان باہر کے موسم میں زیادہ وقت نہیں گزار سکتا کیونکہ اس کی رگوں میں خون جمنے لگتا ہے اور اس کا زندہ رہنا مشکل ہو جاتا ہے۔
فرحت پروین نے اپنے افسانے میں بڑے فنکارانہ انداز سے خارجی اور داخلی موسم کے درمیان ایک پل قائم کیا ہے اور قاری کو سوچنے پر مجبور کیا ہے۔ اس طرح ’منجمد‘ افسانے میں سرد موسم انسانی رشتوں کا ایک استعارہ بن گیا ہے جو فرحت پروین کے فن کا کمال ہے۔
’منجمد‘ کہانی ایک بجھارت ایک معمے اور ایک پہیلی سے شروع ہوتی ہے۔ ایک عورت ایک گیراج سیل سے کچھ چیزیں خریدنا چاہتی ہے۔ وہ سیل کی منتظم سے پوچھتی ہے
’ کیا یہ لوگ کہیں اور چلے گئے ہیں؟‘
’نہیں خاتون خانہ کا انتقال ہو گیا ہے‘ اس نے جواب دیا۔
یہ جواب سن کو اس خاتون کا دل دکھی ہو جاتا ہے اور وہ چند چیزیں خرید کر جلد ہی گھر چلی جاتی ہے۔
اگلے دن وہ آتی ہے تو کیا دیکھتی ہے کہ منتظمین جا چکے ہیں لیکن جانے سے پہلے چند کتابیں اور ایک ڈائری کوڑے میں پھینک گئے ہیں۔ یہ خاتون وہ ڈائری اپنے گھر لے آتی ہے اور بڑے اشتیاق پڑھنے لگتی ہے۔
فرحت پروین نے گیراج سیل۔ موت۔ اور ڈائری۔ سے قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہیں۔ اب وہ اس پہیلی کو بوجھنے کے لیے سارا افسانہ پڑھتا ہے۔
وہ خاتون اس ڈائری کی خالق کو سارہ کا فرضی نام دیتی ہے کیونکہ اس کے پرس پر S لکھا تھا۔
فرحت پروین ایک ماہر نفسیات کی طرح سوچتی ہیں۔ اسی لیے وہ مرنے والی عورت کے بارے میں کہتی ہیں
’کیوں دکھی تھی؟ یہی تو میں جاننا چاہتی تھی۔ اس کے گھر اس کے ساز و سامان سے عیاں تھا کہ اس کا دکھ مادی نہ تھا۔ اس کی روح کو کیا روگ تھا؟ یہی میں جاننا چاہتی تھی‘
فرحت پروین قاری کو اس نفسیاتی پہیلی کو بوجھنے میں اپنا ہمسفر بنا لیتی ہیں۔
افسانے کی ہیروئن جب اس مردہ عورت سارہ کی ڈائری پڑھتی ہے تو اس کی تکلیف دہ زندگی کے راز دھیرے دھیرے منکشف ہوتے ہیں۔
سارہ کے والد نے خودکشی کر لی تھی
سارہ بچپن میں اپنی والدہ کو اپنے والد کا قاتل سمجھتی تھی۔
سارہ کا اپنی ماں سے رشتہ پیچیدہ گنجلک اور تلخ تھا۔
پھر وہ حاملہ ہو جاتی ہے۔ اس کے بچے کا باپ کہتا ہے اسقاط کرا لو۔ وہ نہیں مانتی۔
جب سارہ کی ماں کو حمل کا پتہ چلتا ہے تو وہ اعتراف کرتی ہے کہ وہ بھی چودہ سال کی تھی جب وہ سارہ سے حاملہ تھی۔ وہ کہتی ہے کاش میں نے اسقاط کروا لیا ہوتا۔ وہ سارہ کو بھی مشورہ دیتی ہے کہ اسقاط کروا لے۔
سارہ اس کے خلاف فیصلہ کرتی ہے۔
لیکن اسے احساس ہوتا ہے کہ اس کی ماں کو اسے پیدا کرنے کا پچھتاوا ہے اور وہ اسے ایک سزا سمجھتی ہے۔
ان تفاصیل سے ہمیں سارہ کے نفسیاتی مسئلے اور ماں سے تضاد کی تفاصیل کا پتہ چلتا ہے۔
پھر ایک دن سخت سردی کے موسم میں صبح دروازے کی گھنٹی بجتی ہے۔ وہ دروازہ کھولتی ہے تو وہاں ایک لڑکی کھڑی نظر آتی ہے۔ وہ پوچھتی ہے کہ کیا آپ اپنی ڈرائیو وے کی برف صاف کروانا چاہتی ہیں؟
پھر سارہ کو پتہ چلتا ہے کہ اس لڑکی نے ساری رات باہر سردی میں گزاری ہے۔
وہ اسے اپنے گھر کے اندر لے آتی ہے۔ اس لڑکی کو سردی سے نمونیہ ہو گیا ہوتا ہے۔ وہ ایمبولنس کو فون کرتی ہے۔
وہ بھی اور ڈاکٹر بھی پوری کوشش کرتے ہیں کہ اس کی مدد کریں لیکن وہ اس کی جان نہیں بچا سکتے۔
کہانی کے اس موڑ پر سارہ کے ماضی کے سارے زخم ہرے ہو جاتے ہیں۔ وہ کہتی ہے
’ میں تمہاری قاتل ہوں بیٹی۔ وہ میں ہی ہوں جو خود گرم گھر میں آرام دہ بستر پر سوتی رہی اور تم منجمد کر دینے والی سردی میں خود کو ٹھٹھر کر مرنے سے بچانے کے لیے رات بھر چلتی رہیں دوڑتی رہیں‘
فرحت پروین افسانے کے آخر میں لکھتی ہیں
’ ڈائری کے اس صفحے پر اس‘ سیل ’سے پندرہ دن پہلے کی تاریخ تھی جس سے میں نے یہ گلدان لیمپ اور فوٹو فریم اور پھر وہ پرس خریدا تھا جس پر پیتل کا ایس S چپکا ہوا ہے‘
فرحت پروین نے اس افسانے کے کرداروں کے حوالے سے اپنے ماحول اور معاشرے کے بہت سے مسائل اور تضادات کی طرف اشارہ کیا ہے اور قاری کو ان مسائل کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے کی دعوت دی ہے جو افسانے کو ایک کامیاب افسانہ بناتی ہے۔
میں فرحت پروین کو۔ منجمد۔ لکھنے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
فرحت پروین کے مجموعے کا دوسرا افسانہ۔ جنک یارڈ۔ ہے۔ اس میں گیراج سیل پر لگے ہوئے کسی گھر کی فالتو چیزوں کی طرح ایک جنک یارڈ میں کاروں اور دوسری چیزوں کے نئے اور پرانے پرزے سستے داموں ملتے ہیں۔
فرحت پروین جنک یارڈ کو ایک استعارہ بنا کر ایک مہاجر کردار کی کہانی سناتی ہیں جس نے بہت سے تکلیف دہ واقعات اور جذبات کو اپنے لاشعور میں دھکیل رکھا ہے لیکن اس جنک یارڈ کو دیکھ کر وہ سب یادیں لاشعور سے ابھر کر شعور میں آ جاتی ہیں۔
فرحت پروین ماہر نفسیات نہ ہوتے ہوئے اپنی کہانیوں میں آزاد تلازمہ خیال free associationکا استعمال کرتی ہیں۔ اور لا شعور اور شعور کے رشتے کو اچھی طرح نبھاتی ہیں۔
کہانی کا ہیرو شہزاد ایک نفسیاتی تضاد کا شکار ہے۔ ایک طرف اس کی بیوی سحر ہے جسے وہ دل کی گہرائیوں سے چاہتا ہے اور دوسری طرف اس کی ماں ہے جس سے وہ بہت پیار کرتا ہے۔
ہیرو جب اپنے ماں باپ کو امریکہ بلاتا ہے تو اس کی بیوی انہیں اپنے ساتھ اپنے گھر میں رکھنے کی بجائے ان کے لیے ایک اپارٹمنٹ کرائے پر لے لیتی ہے۔ ہیرو بہت حیران ہوتا ہے لیکن اس کی بیوی اپنی من مانی کرتے ہوئے اسے اپنی ماں سے دور رکھتی ہے۔ ہیرو ایک احساس جرم کا شکار ہو جاتا ہے لیکن اس احساس کو اپنے لاشعور میں دھکیل دیتا ہے اور اب جنک یارڈ دیکھتا ہے تو ساری پرانی باتیں دوبارہ یاد آنے لگتی ہیں۔
فرحت پروین کے اس افسانے میں ان کے مکالمے بہت تیکھے اور بھرپور ہیں۔
جب ہیرو شہزاد کی والدہ کا امریکہ آنے کا پروگرام بن جاتا ہے تو ایک بحران جنم لیتا ہے۔ فرحت پروین لکھتی ہیں
’ میں نے سحر کو اطلاع دی تو وہ گڑبڑا گئی۔‘ ارے میں اتنی جلدی کیسے تیاری کر سکتی ہوں؟ انہیں کہو کہ ابھی چند مہینے اور رک جائیں ’
’کیسی تیاری سحر؟‘ میں حیران تھا
’تو کیا ان کے رہنے کا انتظام نہیں کرنا؟‘
’کیا مطلب؟ کوئی خاص انتظام کرنا پڑے گا کیا؟‘ میں ہنسا
’تو اور نہیں کیا۔ کیا معلوم وہ کتنے عرصے رہنا چاہیں۔ تو بہتر ہے ان کے لیے ان کی ضرورت کے مطابق چھوٹا سا اپارٹمنٹ لے لیتے ہیں۔ میں خوب اچھی طرح سیٹ کر دوں گی۔ ہم لوگ آتے جاتے رہیں گے‘
’اس کی کیا ضرورت ہے۔ اتنا بڑا گھر ہے ہمارے پاس‘
’اس گھر کو تم بڑا کہتے ہو۔ اس میں زندگی کی ضرورتیں ہی بمشکل پوری ہوتی ہیں۔‘
فرحت پروین نے ایک ایسے نسوانی کردار کا فنکارانہ نقشہ کھینچا ہے جس کے گھر میں تو بہت جگہ ہے لیکن اس کے دل میں کوئی جگہ نہیں ہے۔
سحر اپنی ساس اور سسر کو ائرپورٹ سے اپنے گھر لانے کی بجائے ایک اپارٹمنٹ میں لے جاتی ہے۔ اس سے شوہر کا بھی اور اس کی ماں کا بھی دل بجھ جاتا ہے۔ ان دونوں کو بالکل اندازہ نہ تھا کہ ان کی زندگی سحر کے رحم و کرم پر ہوگی۔
ماں دھیرے دھیرے اتنی اداس ہو جاتی ہے کہ مرنے سے پہلے ہی مر جاتی ہے۔
’ اماں کے اندر سے ماں نکل گئی ہے اور صرف ان کا خالی وجود رہ گیا ہے‘
فرحت پروین ماں اور بیٹے کے رشتے کے کرب کو بڑی خوبصورتی سے بیان کرتی ہیں۔
اپنے بیٹے سے زیادہ اس ماں کا خیال ہمسائے کا ایک اجنبی نوجوان کرتا ہے اور ایک دن جب وہ کسی شدید بحران کا شکار ہوتی ہیں تو انہیں ہسپتال لے جاتا ہے۔
پتہ چلتا ہے ’اس حساب سے اماں گھر پر اکیلی سات گھنٹے بے ہوش پڑی رہی تھیں‘
اس حادثے سے میاں بیوی کے رشتے میں تشنج پیدا ہو جاتا ہے۔
’ سحر اپنے ذہنی دباؤ کو دور کرنے کے لیے میکے چلی گئی‘
شہزاد کہتا ہے ’سحر جو گئی تو مہینوں نہ لوٹی۔ جب بھی واپسی کا پوچھتا تو وہ ٹال جاتی۔ اور آخر ایک دن اس نے کہہ ہی دیا کہ جب میرا چڑچڑا پن دور ہو جائے تو میں اسے بتا دوں وہ لوٹ آئے گی۔‘
فرحت پروین ایک ماہر نفسیات کی طرح خاموشی اور زبان بے زبانی سے بھی بخوبی واقف ہیں
’ جب سے اماں نے قوت گویائی کھوئی تھی ان کی آنکھیں بہت بولنے لگی تھیں‘
جب ماں کو نرسنگ ہوم بھیجنے کا فیصلہ ہوا تو کہنے لگیں
’ منو! میرے بچے خدا کے لیے مجھے وہاں نہ بھیجو۔ چاہے زندہ دفن کر دو‘ یہ باتیں ان کی آنکھیں پہلے ہی کہہ چکی تھیں۔
اور جب ماں کا انتقال ہوا تو بیٹا لندن میں تھا۔ لوٹا تو اسے احساس ہوا
’ ان کی ناراض روح تو کہیں آس پاس ہوگی‘
’میں آہستگی سے تابوت کی طرف بڑھا۔ اماں اس کے اندر ابدی نیند سو رہی تھیں۔ میں نے ڈھکنا نہ اٹھایا کہ مجھ میں اس کی ہمت ہی نہیں تھی۔ مجھے خوف تھا کہ ان کے چہرے کی بے بسی اور خاموش شکوے اب بھی زبان بے زبانی سے بولیں گے کہ زندگی میں تو اس گھر میں میرے لیے جگہ نہ تھی اب کیوں لے آئے ہو دنیا کے دکھاوے کے لیے۔
’ میرا ضبط جواب دے گیا اور میں اپنے دوست ڈاکٹر سہیل کے گلے لگ کر بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رو دیا۔
فرحت پروین اس دلخراش افسانے کا اختتام یوں کرتی ہیں
’آج جنک یارڈ میں جگہ جگہ پرانی چیزوں کی زنگ آلود ڈھیریوں کو دیکھ کر مجھے یوں لگا جیسے میرے دماغ کی سب الجھی تاروں سے اماں کا الجھے بالوں والا کانپتا ہوا سفید سر اور بجھی بجھی آنکھیں ابھر آئی ہوں اور میں ان کا سامنا نہیں کر پا رہا۔ پھر وہ آنکھیں اندھے کنوؤں کی طرح گہری ہوتی جا رہی ہیں اور میں کہیں پاتال میں دھنستا جا رہا ہوں۔ بہت نیچے۔ بہت ہی نیچے‘
آخر میں میں بس اتنا کہوں گا کہ فرحت پروین کے افسانے نہ صرف ادب کی کتابوں میں پڑھائے جا سکتے ہیں بلکہ نفسیات کے نصاب میں بھی شامل کیے جا سکتے ہیں کیونکہ ان میں ادبی بصیرتیں بھی شامل ہیں اور نفسیاتی راز بھی
ڈاکٹر خالد سہیل