پتوں کے ٹوٹنے کی صدا دیر تک چلی
کل دشت جسم و جاں میں ہوا دیر تک چلی
روشن رہیں نگار ہنر کی ہتھیلیاں
اپنی دکان رنگ حنا دیر تک چلی
جب نیند اڑ گئی تو ستارے بہت کھلے
جب رات گھٹ گئی تو ہوا دیر تک چلی
ہم بند کر کے سو گئے خوشبو کی کھڑکیاں
سنتے ہیں رات باد صبا دیر تک چلی
محفل میں چل پڑی تھی ہمارے جنوں کی بات
پھر داستان چاک قبا دیر تک چلی
ساحل پہ آ کے ڈوب گئیں سب عقیدتیں
گہرے سمندروں میں دعا دیر تک چلی
قیصر الجعفری