تمہیں چند بیکار سوچوں نے گھیرا ہے۔۔۔
کتنے پریشان، مجبور، رنجور، بےکل ہو
اور زندگی !!!!
جونک کی طرح سینے سے چمٹی ہے
کیسا بھی حیلہ کرو
دل سے مُرجھایا بادل سرکتا نہیں
گیلی دیوار سے نم اترتا نہیں
گھاؤ بھرتا نہیں
بےاماں، الجھے، بےمایہ، تنہا
زمانہ ہوا ہے زمانے نے مڑ کے نہ دیکھا
مگر جیسے تیسے جیے جا رہے ہو
چلو یہ بتاؤ
کبھی اپنے کھینچے ہوئے دائرے سے پرے کی خبر لی ہے؟
انسان کی بات چھوڑو
اسے روتے رہنے کی عادت ہے
دریا کو دیکھا ہے؟
ملاح، بجرے، مسافر
کنارے لگیں تو بھلا مُڑ کے کب دیکھتے ہیں
تھکی ماندی لہروں کو ویران شاموں میں
کون اپنے شانوں پہ رکھ کےسلاتا ہے
دریا کو کون اپنے گھر لے کے جاتا ہے؟
اُن ڈوبتے زرد تاروں کو بہلانے والا کوئی ہے؟
کوئی بھی نہیں
جو فقط اتنا کہہ دے
دھڑکتی ہوئی رات
پھر لوٹ آئے گی
سرکش ہواؤں کی زد پہ لرزتے ہوئے پات دیکھے ہیں؟
خاموش پیڑوں کا دکھ کون سنتا ہے؟
کوئی نہیں
اور حقیقت تو یہ ہے انہیں اس کی پروا بھی کب ہے
پہاڑی کے دامن میں کھلتے ہوئے پھول کو کچھ قلق ہے؟
جو اس پرکسی کی نگہ نہ پڑی
اور تم اپنے جی کو نظر بھر کے دیکھو
ذرا چوٹ پہنچی نہیں اور گھبرا گیا ہے
اگرچہ کھلی ہے نئی دھوپ کھڑکی سے باہر
مگر ایک تاریک منظر جو ڈھلتا نہیں ہے
مگر ایک برفیلا پل جو تمہاری نگاہوں میں پتھرا گیا ہے
تمہیں چند بیکار سوچوں نے گھیرا ہوا ہے
گلناز کوثر