پہاڑیے
پہاڑیوں میں بسیرا کر کے وہ آبشاروں سے کھیلتے ہیں
کہیں پہ بیٹھک سجا کے شاموں کو ماہیے گاتے راگ کومل کو چھیڑتے ہیں
پہاڑیے جب بھی ترش لہجوں میں بولتے ہیں
دلوں کے نازک
بدن کے پختہ،
عجیب قصوں میں گھیرتے ہیں
نفیس شالوں میں اپنے بازو لپیٹتے ہیں
سروں پہ خوابوں کی گٹھڑیوں کو
اٹھائے پھرتے ہیں برف وادی کی رونقوں میں
انہیں پکارو تو آگے سے”جی کراں” کی آواز ان کے میٹھے لبوں سے کانوں کو چومتی ہے
کبھی وہ سیف الملوک کی لوک پڑھتے پڑھتے
جو رو پڑیں تو خدا کہیں بادلوں سے بارش اچھالتا ہے
عجیب مخلوق
دوسروں کے دلوں کی دھڑکن کو جانتے ہیں
گھر آئے کو وہ خدا کی برکت شمار کر کے
خدا سے زیادہ قریب رکھتے ہیں مانتے ہیں
پہاڑیے ہیں جو ترش لہجوں کا خول پہنے
دلوں کے نازک بدن کے پختہ
زمیں پہ جنت سنبھالتے ہیں
تجدید قیصر
بہت خوبصورت نظم
ڈھیروں دااااد